رسائی کے لنکس

اقوامِ متحدہ کا موسمیاتی تبدیلی پر فنڈ قائم؛ کیا یہ ماحولیاتی انصاف کی جانب پہلا قدم ہے؟


شرم الشیخ، مصر میں ایک ہاتھ، کاپ 27 کانفرنس کے دوران نقصان سے ازالے کا مطالبہ کرتے ہوئے۔ فوٹو اے پی، 18 نومبر 2022
شرم الشیخ، مصر میں ایک ہاتھ، کاپ 27 کانفرنس کے دوران نقصان سے ازالے کا مطالبہ کرتے ہوئے۔ فوٹو اے پی، 18 نومبر 2022

مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی اقوام متحدہ کی آب و ہوا کی تبدیلی کی کانفرنس’ کاپ 27 ‘میں ایک تاریخی معاہدے پرہونے والے اتفاق رائے کو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک سفارتی کامیابی قراردیا جارہا ہے جو ایک عرصے سے گرین ہاؤس کاربن کے اخراج کے باعث آب و ہوا کی تبدیلی سےآنے والی قدرتی آفات سےنقصان کی تلافی کے لیے عالمی سطح پر ایک فنڈ قائم کرنے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔

پاکستان میں رواں سال ملک میں آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے آنے والے تباہ کن سیلاب کےبعد پاکستان کی قیادت عالمی برادری پر زور دیتی آرہی تھی کہ وہ پاکستان جیسے ممالک کی مالی معاونت کرے جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ترقی پذیر ممالک میں آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے نقصان اور تباہی کی تلافی کے لیے ’کاپ 27‘ کی طرف سے فنڈ کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ماحولیاتی انصاف کی جانب پہلا قدم قرار دیا ہے۔

پاکستان کی آب و ہوا کی تبدیلی کی وزیر سینیٹر شیری رحمان نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ اس فنڈ کے فعال ہونےکی منتظر ہیں تاکہ ایک موثر ادارہ بن سکے جو ان کمزور ممالک کی مدد کرسکے جن کو قدرتی آفات کا سامنا ہے۔ شیری رحمان نے اس فنڈ کو ان آبادیوں کے لیے امید کی ایک کرن قرار دیا جو آب و ہوا کی تبدیلی کے دباؤ کے باعثاپنی بقا کے لیے جدو جہد کر رہی ہیں۔اور یہ کہ اس سے ’کاپ27 ‘ کے عمل کی ساکھ بھی بہتر ہوئی ہے۔

مبصرین اس فنڈ کے قیام کو پاکستان جیسے ممالک کے لیے بڑ ی پیش رفت قرار دے رہے ہیں جو ایک عرصے سے آب ہ ہوا کی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے مالی معاونت کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، جسے زر تلافی کا اقدام بھی قرار دیا جاتا ہے۔

اس فنڈ کی ہیت اور دیگر تفصیلات ایک عبوری کمیٹی طے کر ےگی لیکن باور کیا جاتا ہے کہ اس فنڈکے فعال ہونے کے بعد ان ممالک کی مدد کی جائے گی جنہیں آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑ ا ہو۔

پاکستان کی آب و ہوا کی تبدیلی کی کونسل کےرکن اور ماحولیات کے وکیل احمد رفیع عالم نے کہاکہ اس فنڈ کے قیام پر عالمی اتفاق رائے پاکستان جیسے ممالک کی سفارتی کامیابی ہے لیکن ان کے بقول اس فنڈ کے فعال ہونے میں مزید چند سال لگ سکتے ہیں۔

ان کے بقول پاکستان حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے اس فنڈ سے مالی معاونت کی توقع تبھی کر سکتا ہے جب فنڈ پوری طرح فعال ہوگا۔

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو گزشتہ چند سالوں کے دوران آب و ہوا کی تبدیلی اور اس کی شدت کے باعث کبھی سیلاب کبھی خشک سالی اور دیگر قدرتی آفات کا سامنا کرتے آرہے ہیں جب کہ یہ ممالک عالمی ماحولیاتی آلودگی کی شدت میں اضافےکے ذمہ دار نہیں ٹھہرتے۔

یادر ہے کہ امپیریل کالج لندن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں سال پاکستان میں ہونے والی شدید بارشوں کی ایک بڑی وجہ آب و ہوا کی تبدیلی کو قرار دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں لگ بھگ تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ لیکن احمد رفیع عالم کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان کم ہے کہ پاکستان کےحالیہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی فوری تلافی ہو سکے۔

آب و ہوا کی تبدیلی کے ماہر ڈاکٹر قمر الزمان نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک آب و ہوا کی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ آخر کار ایک معاہدہ ہوا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کے نقصانات کے ازالے کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں۔

اگرچہ پاکستان میں آنے والے حالیہ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے دنیا کی توجہ آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرات کی جانب ایک بار پھر مبذو ل ہوئی ہے تاہم پاکستان نے جی 77 پلس چین کے پلیٹ فارم سے اس معاملے کو اجاگر کر نے میں اہم کردارادا کیا ہے۔

گزشتہ 10 سال سے زائد عرصے سے ہر آب و ہوا کی کانفرنس میں اس تبدیلی کے اثرات سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لیے کسی مجوزہ فنڈ کے معاملے پر بحث ہوتی رہی ہے۔ لیکن اتفاق رائے پہلی بار صرف حالیہ کانفرنس میں ہو سکا ہے۔

ماہرِ موسمیات ڈاکٹر قمر الزمان کہتے ہیں کہ یہ معاملہ بھی حل طلب ہے کہ کون سے ممالک اس فنڈ میں اپنا حصہ ڈالیں گے اور کون سے اس فنڈز سے معاونت حاصل کرنے کے اہل ہو ں گے۔

انھوں نے کہا کہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ممالک اس فنڈ میں زیادہ حصہ ڈالیں گے جن کا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں زیادہ کردار ہے جو آب و ہوا کی تبدیلی کا باعث بن رہا ہے۔ لیکن وہ ممالک جو اس فنڈ سے آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے شدید طور پر متاثر ہورہے ہیں لیکن ان کا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ بہت کم ہے وہ اس فنڈ سے مددحاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔

ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس اور پاکستانی سیلاب زدگان کے لیے امداد
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:28 0:00

انھوں نے کہا عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ زیادہ ہے۔

دوسری جانب چین اور بھارت جو اپنے آپ کو ترقی پذیر ممالک قرا ردیتے ہیں ان کا بھی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ زیادہ ہے۔

لیکن دوسری جانب ماہرِ موسمیات ڈاکٹر قمر الزمان کو اس بات پر مایوسی ہوئی ہے کہ مصر میں ہونے والی کانفرنس میں عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم اضافے کو محدود کرنے کے لیے کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس ہدف کو حاصل کرنا اس وقت تک آسان نہیں ہو گا جب تک ترقی پذیر ممالک کاربن ایندھن کے استعمال میں بتدریج کمی پر متفق نہیں ہو جاتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG