یہ کیسا موسم بہار آیا ہے۔ جس میں ہر طرف رنگ برنگے خوشبو دار پھول تو کھلے ہیں۔ مگر ان خوشبوؤں کو محسوس کرنے والا کوئی نہیں۔ ان پھولوں کی مہک سونگھ کر خدا کی قدرت پر شکر ادا کرنے والا کوئی نہیں۔
کوئی نہیں جو شدید ترین سردیوں کے بعد چمچماتی دھوپ میں کھلنے والے پھولوں کا گلدستہ بنا سکے۔ لگتا ہے کہ سب کرونا وائرس کے خوف سے اپنے گھروں میں قید ہیں اور یہ بھول چکے ہیں کہ موسم بہار میں کونپلوں کو پھولوں میں بدلنے والا ہی کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کوئی حل نکالے گا۔
پاکستان کا دل کہلائے جانے والے شہر لاہور کی سڑکوں پر بہار کی آمد کو دیکھتے ہوئے لگائی گئی پنیریاں اب پھول دار پودوں میں بدل چکی ہیں۔ مگر ان رنگ برنگے پھولوں اور بل کھاتی نازک ٹہنیوں کو سنوارنے اور گرمی کی بڑھتی شدت میں ان پر پانی کا چھڑکاؤ کرنے والا کوئی نہیں۔
تیز ہواؤں اور بے موسمی بارشوں سے ٹوٹنے والے پتوں کو کیاریوں سے نکالنے والا بھی کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ لگتا ہے کہ بہار کی آمد پر سب باغبان لاپتا ہو گئے ہیں۔
موسم خزاں کے خاتمے اور موسم بہار کی آمد پر شہرِ لاہور میں ہر سُو خوشبو دار پھولوں کا ڈیرہ ہوتا ہے۔ مصروف ترین شاہراہوں کے کناروں پر لگے درختوں پر نئے پتے پھوٹ رہے ہوتے ہیں۔
موسم بہار کی آمد پر محکمۂ ہارٹی کلچر اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب پت جھڑ ختم ہو اور پھولوں کی نمائشیں منعقد کی جائیں۔ لیکن اس بار کرونا وائرس کی وبا کے باعث پوری دنیا کی طرح لاہور شہر بھی بند ہے۔
پنجاب حکومت کی طرف نافذ کردہ لاک ڈاؤن کے بعد شہر کی سڑکیں خالی ہیں۔ لہٰذا سڑکوں کے کناروں پر بنی کیاریاں، گملے اور چوراہوں پر لگی دلکش بل کھاتی بیلیں اس انتظار میں ہیں کہ کب کوئی لاہوری آئے اور ان کے ساتھ سیلفیاں کھنچوائے۔
شہر لاہور کی اہم شاہراہیں جنہیں عبور کرنے کے لیے حوصلہ درکار ہوتا تھا کیوں کہ وہاں تیز رفتاری سے گاڑیاں گزرتی تھیں۔ اب وہ پیدل چلنے والوں کے لیے پگڈنڈیاں بن چکی ہیں۔ فٹ پاتھوں پر درختوں سے ٹوٹے پتے بکھرے ہوئے ہیں جنہیں اٹھانے والا اور صفائی کرنے والا بھی کوئی نہیں۔
لاہور پر کرونا وائرس کی ستم ظریفی اور لاک ڈاؤن کے اثرات کا اندازہ اس سے لگائیے کہ رنگ برنگے پھولوں سے سجی سڑک کے فٹ پاتھوں پر ہاتھ پھیلائے امداد کے طلب گار لوگ بیٹھے ہیں جو اکا دکا گزرتے راہ گیروں سے مدد طلب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کوئی گاڑی میں گزرتا راہ گیر رک جائے تو ارد گرد سے امداد کے طلب گار اس گاڑی کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔
لاہور کا مال روڈ جو اکثر مقامات پر سڑک کنارے لگے درختوں کی چھاؤں سے ڈھکا دکھائی دیتا ہے، عام دنوں میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی آماج گاہ ہوتاہے۔ لیکن اس موسم بہار میں وہہ بھی کرونا وائرس کی وجہ سے سنسان ہے۔
آنے اور جانے والی سڑکوں کے درمیان گرین بیلٹس ہر رنگ و قسم کے پھولوں سے سجی ہیں۔ لیکن چوراہوں پر صرف ٹریفک پولیس کے اہلکار خوش گپیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس مال روڈ پر اگر کچھ نیا ہے تو سڑک کنارے بیٹھے وہ معصوم بچے جو لکڑی کے اسٹینڈ پر مختلف اقسام کے فیس ماسک فروخت کر رہے ہیں۔ تاکہ کرونا وائرس سے محفوظ رہا جا سکے۔
لاہور کے دیگر علاقے جیسے جیل روڈ، مین بلیوارڈ، کنال روڈ، ماڈل ٹاؤن اور فیروز پور روڈ پر بھی تقریباً ہر جگہ رنگ برنگے پھول خوشبو بکھیرتی مہک کے ساتھ لوگوں کی راہ تک رہے ہیں۔ لیکن گھروں سے نکلنے والا کوئی ہے ہی نہیں جو ان پھولوں کے پاس آئے اور انھیں چھو کر سبحان اللہ بولے۔
دوسری طرف لاہور کے جن چوراہوں پر دیہاڑی دار مزدوروں کا ڈیرہ تھا۔ اب وہاں اداسی کے ڈیرے ہیں۔ چند دیہاڑی دار مزدور اور کاریگر ہاتھوں میں بیلچے، ہتھوڑیاں اور دیگر تعمیراتی اوزار اٹھائے کام دینے والوں کی راہ تکتے ہیں۔
لاہور میں لاک ڈاؤن نافذ ہوئے کافی دن گزر ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ یہ دیہاڑی دار طبقہ مزدوری نا ملنے کی وجہ سے مفلسی کا شکار ہو کر بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔
ایسی صورتِ حال میں لاہور کے کچھ مخیر حضرات ان چوراہوں کا رُخ کر رہے ہیں جو اپنی گاڑیوں میں راشن کے تھیلے یا لنگر لے کر آتے ہیں۔ ان کے پہنچتے ہی ارد گرد سے مزدوروں اور راہ گیروں کا ایک جم غفیر راشن یا لنگر پر ٹوٹ پڑتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے چند منٹوں میں سب کچھ تقسیم ہو جاتا ہے۔
موسم بہار میں حملہ آور ہونے والا کرونا وائرس یقینی طور پر آج نہیں تو کل ختم ہو جائے گا۔ لیکن اس دوران موسم بہار گرمیوں میں بدل جائے گا جس میں چلنے والی لوؤں کے تھپیڑے کھلنے والے ان پھولوں کو مرجھا دیں گے۔ پھولوں کی خوشبو برسات کے موسم میں ہونے والی بارشوں کے بعد مٹی سے پھوٹنے والی خوشبو میں بدل جائے گی۔
کرونا وائرس سے متاثرہ پوری دنیا کی طرح لاہور کے باسی بھی یقیناً پُر امید ہیں کہ جیسے خزاں کے بعد بہار آتی ہے، ویسے ہی اس وبا کے خاتمے کے بعد اچھے دن ایک بار پھر سے آٗئیں گے۔ لاہوری ایک بار پھر مسکراتے چہروں کے ساتھ موسم بہار میں کھلنے والے پھولوں کی طرح کِھل جائیں گے۔