پاکستان کی سول ایوی ایشن نے کب، کیا اور کون سا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اور اس میں کیا ردو بدل ہوئے؟ کون سی فلائٹ بُک کرنے کے لیے کیا نمبر ملایا جاتا ہے؟ یہ سب معلومات اس وقت بیرون ملکوں میں پھنسے پاکستانیوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
شاید متعلقہ محکمے بھی اتنا نہ جانتے ہوں جتنا ان پاکستانیوں کو معلوم ہو چکا ہے جو اپنے وطن سے ہزاروں کلو میٹر دور پاکستان واپسی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔
پاکستان نے کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے 21 مارچ کو جب اپنی سرحدیں بین الاقوامی پروازوں کے لیے بند کیں تو میں اس وقت امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں میں اپنا سامان سفر باندھ چکی تھی۔
ذاتی کاموں یا مصروفیات کے لیے بیرون آنے والے مجھ جیسے ہزاروں پاکستانی بھی اس وقت شاید یہی سوچ رہے تھے کہ اب وطن واپس کیسے پہنچا جائے گا؟ میری سوچ بھی اس سے مختلف نہیں تھی۔
بطور صحافی میں یہ بات تو جانتی تھی کہ چوں کہ حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اور کرونا وائرس دنیا بھر میں تیزی سے مسلسل پھیل رہا ہے۔ لہٰذا گھر واپسی کا سفر ہرگز آسان نہیں ہو گا۔ لیکن کتنا مشکل ہو گا؟ اس کا احساس مجھے آنے والے ہفتوں میں ہوا۔
ابتدا میں یہ پابندی چار اپریل تک لگائی گئی تھی۔ میں نے اپنی ایئرلائن کو درخواست تو کر دی کہ چار اپریل کے لیے دوبارہ ٹکٹ بُک کر دیں۔ مگر واشنگٹن ڈی سی میں واقع پاکستان کے سفارت خانے سے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ چار اپریل کو بھی فلائٹس کی بحالی ایک مفروضہ ہی تھا۔
پاکستانی سفارت خانے کی لینڈ لائن پر تو شاید آپ کا رابطہ متعلقہ افسران سے ہونا مشکل ہو، لیکن اگر ہو جائے تو یقیناً عملہ آپ کو درست معلومات ہی فراہم کرتا ہے اور آپ کی معاونت کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔
یہی سوچتے ہوئے نیو یارک اور واشنگٹن سے سیکڑوں افراد پاکستانی سفارت خانے سے وطن واپسی کے لیے رابطہ کر رہے تھے۔ لیکن اس مرض کی دوا سفارت خانے کے پاس بھی نہیں ہے، یہ راز پریشان مسافر پر جلد افشاں ہو جاتا ہے۔
خیر اور کوئی چارہ نہ دکھا تو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق میں نے چار اپریل کو واپسی کی آس میں اپنا وقت واشنگٹن ڈی سی سے کچھ دور ورجینیا میں اپنے میزبان کے خاندان کے ساتھ گزارا۔ جہاں زیادہ تر دن پاکستان میں موجود اپنے گھر والوں کو تسلیاں دینے اور بقیہ وقت وزارتِ خارجہ اور سول ایوی ایشن کے ممکنہ بیانات کی تلاش میں گزرا۔
اٹھائیس مارچ کو پاکستان میں قدرتی آفات سے بچاؤ کے ادارے (این ڈی ایم اے) کا ایک نوٹیفکیشن میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگا جس میں پروازوں کی بندش ختم کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
اسی خوشی میں دو دن تو گزر گئے، لیکن پیر کو سفارت خانے فون کرنے پر معلوم ہوا کہ اس نوٹیفکیشن کے بعد ایک اور نوٹیفکیشن جاری ہو چکا تھا۔ مسافروں کو خبر بھی نہیں ہوئی کہ ان کا گھر جانا ایک بار پھر تاخیر کا شکار ہو چکا تھا۔
چار اپریل آنے سے پہلے ہی ممکنہ فلائٹ تو منسوخ ہو گئی۔ لیکن اس کے بعد کیا ہو گا؟ یہ سوال مجھے کھائے جا رہا تھا۔ کچھ سینئر صحافی بھی میری طرح امریکہ میں پھنسے ہوئے تھے۔
امریکہ میں موجود وزٹ ویزہ پر آنے والے پاکستانی ان حالات میں دوہرے خطرے سے دو چار ہیں۔ کیوں کہ ہمارے پاس نہ تو یہاں کی ہیلتھ انشورنس ہے اور نہ میڈیکل کی سہولت تک رسائی۔
ایسے حالات میں کہ جب امریکہ میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد چین کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے، لوگوں کی پریشانی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
اسی دوران جب میری ایک دوا ختم ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ امریکی ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ملنا ناممکن ہے اور جب نسخہ ہاتھ آ گیا تو ایک اور مشکل کھڑی ہو گئی۔ کیوں کہ امریکہ میں اس دوا کی قیمت پاکستان سے واشنگٹن کے ہوائی ٹکٹ کی آدھی رقم کے برابر تھی۔
یہ صورتِ حال اور کتنے لوگوں کو درپیش ہو گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ البتہ ایوی ایشن حکام کی بدھ کو ہونے والی میٹنگ امید کی ایک کرن تھی جس کے بعد بین الاقوامی پروازیں جزوی طور پر کھولنے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن نوٹیفکیشن بار بار پڑھنے پر بھی امریکہ میں پھنسے پاکستانیوں کا کہیں ذکر نہ ملا۔
میں نے پریشانی کے عالم میں پاکستان میں موجود کچھ صحافی دوستوں کو فون گھمائے اور چند ایک نے مجھے خود فون کیا۔ جب کوئی سرا نہ ملا تو سفارتی عملے سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی۔
ایک بار پھر مجھے یہی بتایا گیا کہ ہماری باری بھی ضرور آئے گی۔ لیکن کب؟ اس سوال کو آپ ملین ڈالر کا سوال تصور کر لیجیے۔ کیوں کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے پاس ٹورونٹو اور لندن سے ڈائریکٹ پروازوں کا لائسنس ہے۔ لیکن نیو یارک آنے والی پرواز کچھ برس پہلے بند کر دی گئی تھی۔ تو اس سوال کا جواب ملنا بھی مشکل ہے۔
خیر اب بین الاقوامی پروازوں کی بندش میں 11 اپریل تک توسیع کر دی گئی ہے۔ لیکن بیرونِ ملک پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کے لیے خصوصی پروازیں چلانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
لیکن کیا امریکہ میں پھنسے پاکستانی اسپیشل پروازوں میں جگہ پائیں گے؟ یہ نہ سفارت خانہ حتمی طور پر بتا سکتا ہے نہ ہی کوئی بھی پھنسا مسافر۔