صحت کے عالمی ادارے نے کہا ہے کہ براعظم افریقہ میں وبائی مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس نے اب بڑے شہروں سے نکل کر چھوٹی آبادیوں کو بھی اپنی لیپٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔
پیر کے روز تک دنیا بھر میں کروناوائرس کے متاثرین کی تعداد 75 لاکھ سے زیادہ اور اموات 4 لاکھ 21 ہزار ہو چکی تھیں۔ وبا کا زور یورپ میں کم ہوا ہے جب کہ جنوبی امریکہ اور جنوبی ایشیا کرونا وائرس کے نئے مراکز کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ براعظم افریقہ میں بھی وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آ رہی ہے۔ وہاں پائی جانے والی غربت اور صحت کی سہولتوں کی کمیابی کے باعث وبا کے بے قابو ہونے اور بڑے پیمانے پر اموات کے خدشات ہیں۔
جمعرات کے روز تک براعظم افریقہ میں پازیٹو کیسز کی تعداد دو لاکھ سے بڑھ گئی تھی اور اموات پانچ ہزار ہو گئیں تھیں۔ عالمی ادارہ صحت کی افریقہ کے لیے ریجنل ڈائریکٹر متشیدیسو موتی نے کہا ہے کہ کرونا کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچنے میں 98 دن لگے جب کہ مزید ایک لاکھ کا اضافہ صرف 19 دنوں میں ہو گیا۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ عالمی تعداد کے تناسب میں وبا میں مبتلا افراد کی تعداد تین فی صد سے کم ہے، لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ یہاں اس کے پھیلنے کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ افریقہ کے 54 ملکوں میں سے 10 کے اندر نمبروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ براعظم افریقہ میں مریضوں کی کل تعداد کا 75 فی صد صرف ان دس ملکوں میں ہے، جب کہ کل اموات میں سے 71 فی صد کا تعلق صرف پانچ ملکوں سے ہے۔
براعظم افریقہ میں کرونا وائرس کے سب سے زیادہ مریضوں اور اموات کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے۔ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ زیادہ تر کیسز اور ہلاکتوں میں اضافے کا رجحان تقریباً وہی ہے جو یورپ اور امریکہ میں دیکھا گیا ہے۔ یعنی ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کی عمریں 60 سال سے زیادہ تھیں اور وہ ذیابیطس، دل کے امراض، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا اور کئی دوسری بیماریوں میں پہلے سے ہی مبتلا تھے۔
براعظم افریقہ میں کرونا وائرس کے ابتدائی کیسز فروری میں ظاہر ہوئے تھے، جب کہ دنیا کے کئی ملکوں میں اس کا پہلے ہی ظہور ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر موتی نے کہا کہ افریقہ میں وائرس کی تاخیر سے آمد کی وجہ سے یہاں کے ملکوں کو اس بحران سے مقابلے کے لیے وقت مل گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ افریقی ملک ایچ آئی وی ایڈز اور ایبولا جیسی وباؤں سے پہلے ہی نمٹ چکے ہیں، اس لیے انہوں نے اپنے صحت کے پروگراموں کو نئی صورت حال کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔
صحت کے عالمی ادارے کی براعظم افریقہ کے لیے علاقائی ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ یہاں پر سماجی فاصلے اور دوسرے احتیاطی تدابیر پر عمل شروع کر دیا گیا تھا جس سے اس کی رفتار سست کرنے میں مدد ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ گھروں میں رہنے کی پابندی اور کاروبار بند کرنے سے بھاری اقتصادی نقصان ہوا، خاص طور پر ان ملکوں میں جن کی معیشت پہلے ہی کمزور ہے، اس لیے وبا کے بچانے اور زندہ رہنے کے اسباب مہیا کرنے کے درمیان توازن قائم رکھنا بھی ضروری تھا۔
ڈاکٹر موتی نے کہا کہ افریقہ کو عالمی وبا سے مقابلے کے لیے کئی چیلنجرز کا سامنا ہے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہاں ٹیسٹنگ کٹس اور دوسرے طبی سامان کی بہت قلت ہے۔ کرونا وائرس پر توجہ مرکوز کیے جانے سے صحت کے کئی دوسرے شعبے نظر انداز ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بچوں کو مہلک وبائی امراض سے بچاؤ کی ویکیسین دینے کا پروگرام خاص طور پر متاثر ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک کرونا کی ویکسین بن نہیں جاتی، افریقہ کو اسی وبا کے ساتھ رہنا ہے اور اس دوران ایک خاص رفتار سے کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کا بھی سامنا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر افریقہ کو عالمی مدد اور ادویات ملتی رہیں تو وہ اس عالمی وبا کا مقابلہ کر سکتا ہے۔