طبی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر بلوچستان میں احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو صوبے کی 70 فی صد آبادی کرونا وائرس سے متاثر ہو سکتی ہے۔
ملک بھر کی طرح پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بھی کرونا وائرس کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بدھ تک صوبے میں رپورٹ ہونے والے کرونا کیسز کی تعداد 7 ہزار سے بڑھ چکی تھی جب کہ مہلک وائرس سے اموات کی تعداد 62 ہو گئی ہے۔
ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر وائرس کا پھیلاؤ نہ روکا گیا تو صوبے میں کرونا سے ہزاروں اموات ہو سکتی ہیں۔
'کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر' بلوچستان کے تھنک ٹینک میں رضاکارانہ طور پر وائرس پر تحقیق کرنے والے سائنس دان ڈاکٹر وحید نور کے مطابق جون کے آخری ہفتے یا جولائی کے آغاز میں صوبے میں وبا اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ اگر یہی حالات رہے تو ایک ہی دن میں ہزاروں کیس رپورٹ ہو سکتے ہیں۔
اُن کے بقول سخت لاک ڈاؤن کی صورت میں چھ لاکھ افراد کے متاثر ہونے کا تخمینہ تھا۔ لیکن حکومت نے جزوی لاک ڈاؤن کیا اور پھر لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا۔ لہذٰا اس صورتِ حال میں 98 لاکھ افراد متاثر اور ایک لاکھ اموات ہو سکتی ہیں۔
وحید نور کے بقول ٹیسٹنگ صلاحیت کم ہونے کے باعث یہ ضروری نہیں کہ تمام کیس رپورٹ ہوں۔
محکمہ صحت کے بعض افسران کا کہنا ہے کہ صوبے کے مختلف اضلاع کے اسپتالوں میں زیادہ لوگوں کو رکھنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اگر 50 ہزار یا اس سے زائد شہری کرونا وائرس سے متاثر ہوجاتے ہیں تو ہمیں کافی مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل صحت حکومتِ بلوچستان ڈاکٹر سلیم ابڑو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک کروڑ بیس لاکھ کی آبادی والے صوبے میں کرونا سے متاثرہ صرف 4500 مریضوں کو بیک وقت رکھا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر سلیم ابڑو کا کہنا ہے کہ صوبے میں کرونا سے متاثرہ مریضوں کی بڑی تعداد تندرست ہو چکی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مشکلات کے باوجود صوبہ اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اقدامات کر رہا ہے۔ ڈاکٹر سلیم کے بقول چاہے ایک ہزار قرنطینہ مراکز بنا لیں اسی لحاظ سے طبی عملے کی بھی ضرورت ہے۔ لہذٰا کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کو تربیت دے کر اسپتالوں اور قرنطینہ مراکز میں تعینات کیا جائے۔
سلیم ابڑو کا کہنا تھا کہ حکومت نے 100 وینٹی لیٹرز بھی منگوا لیے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ صوبے میں طبی عملے کے 300 سے زائد اراکین کرونا سے متاثر ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر صوبے میں کرونا کے مریضوں کی تعداد 50 ہزار سے بڑھ گئی تو پھر ہم دعا ہی کر سکتے ہیں۔
بلوچستان میں صرف ان لوگوں کو کرونا سے متاثرہ مر یض قرار دیا جاتا ہے جو سرکاری اسپتالوں سے رابطہ یا ٹیسٹ کراتے ہیں۔
صوبے میں ایسے ہزاروں لوگ ہیں جو کرونا سے متاثر ہونے کے بعد اپنے گھروں میں قرنطینہ ہو چکے ہیں۔ اسی طرح خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صوبے میں ہلاکتیں بھی سرکاری اعداد و شمار سے زیادہ ہیں۔