تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکہ کی 21 ریاستوں میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور 21 میں کمی جب کہ آٹھ ریاستوں میں صورتِ حال مستحکم ہے۔
اس دوران اخبار نیو یارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی جیلوں اور قید خانوں میں حالیہ ہفتوں کے دوران کووڈ نائنٹین کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ کے دوران کرونا وائرس سے متاثرہ قیدیوں کی تعداد دو گنا ہو کر اڑسٹھ ہزار ہو گئی ہے۔ مئی کے مہینے کے وسط سے کروناوائرس سے اموات بڑھ کر تیہتر فیصد ہو گئی ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق اب امریکہ میں اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ افراد نرسنگ ہومز اور گوشت کی پیکنگ کے مراکز میں نہیں بلکہ امریکہ کے وہ مراکز ہیں جہاں قید اور اصلاح کی غرض سے لوگوں کو بند رکھا جاتا ہے۔
اخبار کے مطابق اس تعداد میں اضافے کی ایک وجہ امریکی پولیس کے ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کرنے کے خلاف امریکہ بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے گرفتار کئے جانے والے لوگوں کو مقامی جیلوں کے ضرورت سے زیادہ بھرے سیلز میں لایا جانا بھی ہے۔
امریکی ریاست ٹیکساس اور ایریزونا کے شہر شینڈلر میں امریکی قید خانوں کیلئے کنسلٹنٹ سائکائیٹرسٹ، ڈاکٹر اختر حامدی کہتے ہیں کہ امریکہ میں جیل اور پرزن میں فرق ہے ۔جیل کا انتظام مقامی کاؤنٹی چلاتی ہے۔ اس میں وہ لوگ لائے جاتے ہیں جنہیں کسی الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے اور جب تک ان کا کیس چلتا ہے وہ جیل ہی میں رہتے ہیں اور اگر ان کی سزا ایک سال ہو تو وہ جیل ہی میں پوری کرتے ہیں اگر اس سے کم ہو تو جیل سے ہی رہا کر دئے جاتے ہیں ورنہ پرزن بھیج دئے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جیل اور پرزن دونوں مقامات سے متاثرہ افراد کی تعداد مختلف بتائی جارہی ہے، کیونکہ جیل میں لوگ سڑکوں سے براہِ راست لائے جاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو معاشرے کے پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا ہوم لیس ہیں یعنی وہ لوگ جن کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہے۔
ایسے لوگوں کے بارے میں علم نہیں ہو سکتا کہ آیا وہ کرونا وائرس سے متاثر ہیں یا نہیں۔ ایسے لوگوں کو جب پہلے سے بھرے کمرے میں لا کر رکھا جاتا ہے اور وہاں سوشل ڈسٹینسنگ کا کوئی امکان نہیں ہوتا تو وہ سب کو متاثر کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر حامدی کہتے ہیں کہ پرزن یا قیدخانے کی صورتِ حال بالکل مختلف ہے وہاں وہ لوگ لائے جاتے ہیں جنہیں کسی جرم میں سزا ہو چکی ہے۔ وہ لوگ اپنی ڈورمز میں رہتے ہیں جہاں اکثر پچاس سے ساٹھ لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ انہیں تو باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی مگر باہر سے لوگ ان میں لاکر رکھے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ پرزن کا عملہ اگر پورے حفاظتی انتظام کے ساتھ ان میں نہیں جاتا اور انفیکٹڈ ہے تو یہ انفیکشن ان قیدیوں تک پہنچا سکتا ہے اور وہاں سے باقی قیدی متاثر ہو سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب امریکی جیلوں اور پرزنز میں کووڈ کے کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
وہ کہتے ہیں اس وقت سب سے بڑی مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ ان قیدیوں کو الگ کیسے رکھا جائے، کیونکہ ان کے باتھ روم سے لیکر پلے گراؤنڈ سب مقامات مشترک ہیں۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ اگر کسی قیدی میں کرونا وائرس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں تو اسے دوسرے قیدیوں سے الگ کر دیا جاتا ہے اور ایسے تمام قیدیوں کو جو کووڈ نائنٹین سے متاثر پائے جاتے ہیں پرزن کے ہسپتال یونٹ میں پہنچا دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فی الوقت مشکل یہ ہے کہ امریکی پرزنز میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ان قیدیوں کو ایک دوسرے سے فاصلے پر کیسے رکھا جائے، عملے کو ان سے دور کیسے رکھا جائے، کیونکہ پرزن کے اس حصے میں جہاں سخت سیکیوریٹی ہے، قیدی کو باتھ روم تک لیجاتے ہوئے بھی اس کے ہاتھ نہیں کھولے جاتے اور جیل کے دو افسر اسے پکڑ کر لے جاتے ہیں تو حفاظتی اور احتیاطی تدابیر کیسے اختیار کی جائیں۔
پرزن کریکشن پروگرام کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر اختر حامدی کہتے ہیں ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یہ سزا یافتہ قیدی ہیں اور ایک بڑے گروپ میں اگر انہیں الگ رکھا بھی جائے تو بھی سیکیوریٹی کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے، کیونکہ سب قیدی پر امن نہیں ہوتے۔