پاکستان کی یونیورسٹیوں کے ایک کنسورشیم کے سائنس دان جرمنی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی آف میونخ اور پیڈربورن یونیورسٹی سے منسلک پاکستانی نزاد کمپیوٹر سائنس دانوں کے تعاون سے ایف ڈی اے سے منظور شدہ 24440 ادویات میں سے آٹھ ایسی ادویات کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جن کے کرونا وائرس کےخلا ف موثر ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ یہ تجربات کئی تیز رفتار اور طاقتور کمپیوٹرز کو بیک وقت استعمال کرتے ہوئے آرٹیفشل انٹیلی جینس ٹیکنالوجی کی مدد سے کیے گئے۔
اس ٹیم میں علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں میڈیسن شعبے کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمّد زمان خان شامل ہیں جو کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اسلام آباد کے مائیکرو بائیولوجی کے شعبے سے بھی منسلک ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، " کسی بیماری کے علاج کے لئے نئی دوا کی دریافت سے لے کر FDA کی منظوری تک کا سفر کئی برسوں میں طے ہوتا ہے۔ جس دوران اس دوا کی افادیت کو جانچنے کیلئے پہلے جانوروں اور پھر انسانوں پر تجربات کیے جاتے ہیں اور مضر اثرات پر غور کیا جاتا ہے۔ ان تمام مراحل میں طے شدہ معیارات پر اترنے والی دوا ہی عام استعمال کے لئے منظور کی جاتی ہے۔
لیکن تیزی سے بگڑتی موجودہ صورت حال کرونا کے علاج کے لئے کسی نئی دوا کی دریافت اور جانچ کے ان طویل مراحل کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جس کے پیش نظر ان دواؤں میں سے کسی موثر دوا کی تلاش کا فیصلہ کیا گیا جو کسی اور بیماری کے علاج کے لئے پہلے سے منظور شدّہ ہیں اور سال ہا سال سے استعمال کی جا رہی ہیں۔ ایک بیماری کیلئے منظور شدہ دوا کو کسی دوسری بیماری میں مفید استعمال کو Repurposing of drugs کہتے ہیں۔
اس طریقہ تحقیق اور پیش رفت پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر خان نے بتایا، "کرونا وائرس کے علاج کیلئے ایسی دواؤں کی ضرورت ہے جو انسانی خلیوں میں وائرس کے داخلے اور نشونما کو روک سکیں۔ ہم نے سب سے پہلے کرونا وائرس کے جینوم کا مطالعہ کیا جسے چینی سائنس دانوں نے تحقیقی جریدوں کو جاری کیا ہے۔ اس سے ہمیں وائرس کے مختلف پروٹینز کی ساخت کو جانچنے میں مدد ملی۔ پھر جرمنی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی آف میونخ اور پیڈربورن یونیورسٹی کے پاکستانی نزاد کمپیوٹر سائنس دانوں کی مدد سے آرٹیفشل انٹیلی جینس پر مبنی ایک ماڈل تیّار کیا، اور اسے ایک مستند ڈیٹا سیٹ پر تربیت دے کر جانچا گیا۔ جس سے یہ ماڈل ادویات کے مختلف پروٹینز کے ساتھ جڑنے اور انھیں کام سے روکنے کی صلاحیت معلوم کرنے کے قابل ہو گیا۔ ہم نے اس ماڈل کے ذریعے ایف ڈی اے کی منظور شدہ 24440 ادویات کے کورونا وائرس کے 24 پروٹینز سے جڑنے اور کام سے روکنے کی صلاحیت کا اندازہ لگایا۔ جس سے ہم 176 مؤثر ترین ادویات کی فہرست مرتب کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اگلے مرحلے میں ہم نے کئی تیز رفتار اور طاقتور کمپیوٹرز کے بیک وقت استعمال سے بڑے پیمانے پر ڈاکنگ تجربات کرتے ہوئے پچاس ہزار کے قریب مشاہدات اکٹھے کیے۔ جس سے ہم ایسی آٹھ ادویات منتخب کرنے میں کامیاب ہوئے جن کے وائرس کے خلاف موثر ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
منظور شدہ ادویات کے چناؤ سے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر محمّد زمان خان نے بتایا کہ ان ادویات کے چناؤ کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ ادویات سالہا سال سے کامیابی سے استعمال ہو رہی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان میں سے بہت سی ادویات دنیا بھر کے ملکوں میں آسانی سے دستیاب ہیں اور مختلف ملکوں میں پہلے سے موجود ہیں۔
مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق ڈاکٹر محمّد زمان کا کہنا تھا کہ اب ہم ان دواؤں پر لیبارٹری میں تجربات کریں گے اور حوصلہ افزا نتائج کی صورت میں انہیں تحقیقی بنیادوں پر کرونا وائرس کے مریضوں پر استعمال کیا جاۓ گا۔ اس سلسلے میں ہائر ایجوکیشن کمشن سے فنڈنگ کا انتظار ہے۔ اس کے علاوہ ہم اپنے آرٹیفشل انٹیلی جینس کے ماڈل کی بہتری پر مزید کام کر رہے ہیں تاکہ ایسا ماڈل تشکیل دے سکیں جو مستقبل میں کسی بھی ایسی ہنگامی وبا کے فوری علاج کی دریافت میں معاون ہو سکے۔ مستقبل میں ہم جڑی بوٹیوں اور مختلف پودوں پر بھی تحقیق کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے ریسرچر کے تعاون سے 10 ہزار کے لگ بھگ ایسے مالیکیولز کی فہرست تیار کر لی گئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کے وہ اپنی تحقیق کو دو سے تین روز میں ایک Preprint Server کے ذریعے سامنے لائیں گے۔ تا کہ اس موضوع پر کام کرنے والے دوسرے سائنس دان بھی اس کا تنقیدی جائزہ لے سکیں اور مفید معلومات سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اس تحقیق میں حاصل شدہ اب تک کی کامیابی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس تحقیق میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور وہ کرونا وائرس کے علاج کی موثر دوا تلاش کرنے میں بہت پر امید ہیں۔ تاہم ابھی اس سلسلے میں کچھ تجربات ابھی باقی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت کے مراحل میں انہیں SZABMU یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر تنویر خالق اور مالیکیولر بائیولوجی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ پروفیسر امیریٹس شیخ ریاض الدین کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔