کرونا وائرس کی وبا کے دوران کئی نئے اقدامات کیے جارہے ہیں اور کئی پرانی روایتیں زندہ ہورہی ہیں۔ مثلاً ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد پہلی بار 'ڈرائیو ان مووی تھیٹر' بحال کیا گیا ہے۔
انقلاب کے بعد شدت پسند انتظامیہ نے بندش لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ڈرائیو ان سینما کا رواج غیر شادی شدہ جوڑوں کو رازداری کے لمحات فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔
لیکن اب سماجی فاصلے کے دور میں تہران کے مشہور 'میلاد ٹاور' کے قریب ڈرائیو ان تھیٹر چل رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں دکھائی جانے والی فلم سخت گیر نگہبانوں کی منظور کردہ ہے۔
آن لائن ٹکٹ خریدنے کے بعد جب لوگ شام کو تھیٹر پہنچتے ہیں تو وہاں موجود کارکن کاروں پر جراثیم کش اسپرے کرتے ہیں۔ تھیٹر کو فارسی میں 'سنیما مشین' کہا جاتا ہے۔ یہاں آنے والے اپنی کاروں میں لگے ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے فلم کا آڈیو آن کرتے ہیں۔
کرونا وائرس کی وجہ سے اسٹیڈیم اور فلم تھیٹر بند ہیں۔ ان حالات میں پارکنگ لاٹ میں فلم کی اسکریننگ غیر معمولی اقدام ہے۔
وائرس سے ایران بری طرح متاثر ہوا ہے، جہاں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 98000 جبکہ ہلاکتیں 6200 بتائی جاتی ہیں۔ بین الاقوامی ماہرین کے مطابق یہ اعداد و شمار حقائق سے کہیں کم ہیں۔
36 سالہ بہروز نظام اپنی بیگم کے ہمراہ فلم دیکھنے آئے۔ انھوں نے کہا کہ ''یہ بہت ہی خوش کن ہے۔ کم از کم میری عمر کے لوگوں کے لیے یہ پہلا تجربہ ہے۔ ہم صرف خوشی کے اظہار کے طور پر یہاں آئے ہیں۔ فلم اتنی اہم نہیں ہے۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون سی فلم چل رہی ہے یا اس کا معیار کیا ہے۔''
جو فلم دکھائی جارہی ہے، اس کا نام 'ایگزوڈس' ہے۔ پروڈیوسر کے سرپرست پاسدادارن انقلاب ہیں۔ فلم کے ڈائریکٹر ابراہیم حاتمی ہیں۔ فلم کا پلاٹ کپاس کی کاشت کاری ہے۔ کاشت کاروں کی محنت اس لیے رائیگاں جاتی ہے کہ مقامی ڈیم کی وجہ سے سیم و تھور پھیل جاتا ہے اور زرخیز زمین بنجر ہوجاتی ہے۔
جو ایکٹر کاشتکاروں کی قیادت کرتا ہے، وہ اسلامی جمہوریہ میں امریکی کاؤبوائے سیم الیٹ کا ہم شکل ہے۔ وہ کاشتکاروں کے ٹریکٹر چلا کر تہران آتا ہے جہاں سرکاری محکمہ جات کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جاتا ہے۔