پاکستان میں زرِ مبادلہ بھیجنے کا ایک اہم ذریعہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ایسے پاکستانی جو بیرونِ ملک سے سرمایہ بھیجتے تھے ان میں سے کئی بے روزگار ہو کر واپس آ چکے ہیں یا آنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ میں قائم 'کرائسز مینیجمنٹ یونٹ' کے مطابق دنیا بھر سے تین لاکھ چار ہزار سے زائد پاکستانی وطن واپس آئے ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری کے مطابق سمندر پار پاکستانیوں کو بہت سی تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ اُنہیں روزگار فراہم کرنے کے لیے حکومت کوشاں ہے۔
'پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر ایسوسی ایشن' کے چیئرمین سرفراز ظہور چیمہ کہتے ہیں کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث اوورسیز پاکستانی مزید مشکلات سے دو چار ہو گئے ہیں۔
پیشے کے لحاظ سے الیکٹریکل انجینئر رضوان بھی اُن ہی پاکستانیوں میں سے ایک ہیں جو اس وبا کے پھیلنے سے پہلے عمان سے چھٹیاں گزارنے پاکستان آئے تھے۔ اس دوران بیرون ملک جانے والی فلائٹس منسوخ ہونا شروع ہو گئیں اور ان کی کمپنی نے بھی اُنہیں ملازمت سے فارغ کر دیا۔
رضوان اب پاکستان میں ہی مقیم ہیں اور ان دنوں ٹیوشن پڑھا کر گزر بسر کر رہے ہیں۔
رضوان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ اس میں ملازمت چھوٹ جانے کے امکانات بہت زیادہ تھے اور وہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی تھے۔
کتنے پاکستانی واپس آئے ہیں؟
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق کرونا کی عالمی وبا پھیلنے کے بعد متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے سب سے زیادہ پاکستانی وطن واپس آئے ہیں۔
کرائسز مینیجمنٹ یونٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات سے ایک لاکھ 54 ہزار، سعودی عرب سے 63 ہزار 595، قطر سے 17 ہزار، عمان سے 11 ہزار 729، کویت سے دو ہزار 314 اور کرغزستان سے آٹھ ہزار 110 پاکستانی واپس پہنچے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق اسی طرح برطانیہ سے سات ہزار 122، امریکہ سے ایک ہزار 702، چین سے 25 ہزار 250، بحرین سے چار ہزار 469 اور ترکی سے چھ ہزار 339 پاکستانیوں کو واپس وطن لایا گیا۔
افغانستان سے چار ہزار 98، ایران سے ایک ہزار 80 اور بھارت سے 418 پاکستانی وطن واپس آئے۔
ریکارڈ کے مطابق چار ہزار 329 پاکستانی زمینی راستوں کے ذریعے وطن واپس لائے گئے جب کہ ملکی اور غیر ملکی ایئر لائنز کی مجموعی طور پر 500 سے زیادہ پروازیں آپریٹ کی گئیں۔
خصوصی پروازوں کے ذریعے تبلیغی جماعت سے وابستہ دو ہزار افراد اور ایک ہزار 326 زائرین سمیت بیرونِ ملک جیلوں میں قید ایک ہزار 745 پاکستانیوں کو وطن واپس لایا گیا ہے۔
کیا پاکستانی دوبارہ خلیجی ممالک جا سکیں گے؟
پاکستان میں کرونا وائرس تیزی سے پھیلنے کے پیشِ نظر 21 مارچ کو حکومت نے تمام بین الاقوامی پروازوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے بعد چار اپریل سے پاکستان نے محدود فلائٹ آپریشن شروع کیا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ وسعت ہوتی گئی۔
اس وقت ہزاروں پاکستانی ایسے ہیں جو لاکھوں روپے خرچ کیے جانے کے باوجود بیرونِ ملک سفر نہیں کر سکے۔
پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر ایسوسی ایشن کے چیئرمین سرفراز ظہور چیمہ کہتے ہیں کہ کرونا کی وجہ سے 60 ہزار افراد ایسے ہیں۔ جن کے ویزا سفارت خانوں سے لگ گئے ہیں لیکن پروازیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ بیرونِ ملک نہیں جا سکے۔
اُن کے بقول ایک لاکھ سے زائد افراد کے ویزے پراسیسں میں ہیں۔ لیکن کئی سفارت خانے اس وقت کام نہیں کر رہے جس کی وجہ سے صورتِ حال خراب ہے۔
سرفراز چیمہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بیرونِ ملک ملازمت کرنے والے پاکستانیوں کو دوبارہ بھجوانے کے لیے مختلف سفارت خانوں سے بات ہو رہی ہے۔ تاکہ ان کے ویزوں میں توسیع کرتے ہوئے انہیں باہر جا کر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت صورتِ حال معمول کی طرف لوٹ رہی ہے اور بیرونِ ملک بھی کارکنوں کی طلب بڑھ رہی ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر ان کوششوں کو تیز کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ پاکستانی ورکرز کو بیرونِ ملک ملازمتیں دلوائی جائیں۔
باہر سے آنے والوں کے لیے پاکستان میں کیا ہے؟
بیرونِ ملک سے آنے والے بیشتر افراد پاکستان میں ملازمتوں کے حوالے سے پریشان ہیں۔
اوورسیز پاکستانیوں کے لیے وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کہتے ہیں کہ حکومت نے بے روزگار افراد کے لیے ایک ‘ویب پورٹل’ بنایا ہے۔ جس میں بے روزگار افراد کا تمام ڈیٹا موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 'نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم' کی طرف سے بھی ان افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان آنے والے افراد کو بیرونِ ملک واپس بھجوانے کے لیے قطر سمیت مختلف ممالک کی حکومتوں سے بات چیت جاری ہے۔
دوسری جانب سرفراز چیمہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی پاکستانی مکمل ایگزٹ کر کے آ رہا ہے تو اسے دوبارہ ویزا حاصل کرنا پڑے گا۔ لیکن انہیں آسانی یہ ہے کہ تجربے کی بنیاد پر اُنہیں ملازمتیں آسانی سے مل سکتی ہیں۔
پاکستان میں ملازمتوں کی صورتِ حال
اس بارے میں سابق وزیرِ خزانہ اور ماہرِ معیشت حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ پاکستان میں سات کروڑ کی افرادی قوت میں سے کرونا وائرس سے قبل 50 لاکھ لوگ بے روزگار تھے۔ اس وبا کے بعد مزید 70 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔
ان کے بقول اس وقت ایک کروڑ 20 لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ بیرون ملک سے تقریباً تین لاکھ لوگ واپس آئے ہیں اور موجودہ حالات میں ان کے لیے ملازمتیں موجود نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی بے روزگار افراد کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ بیرونِ ملک سے واپس آنے والوں میں بڑی تعداد سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے آنے والوں کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتِ حال میں بہتری آنے میں کم سے کم چھ ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں صنعتی شعبہ کھولنا ضروری ہے۔ اب جب تمام کاروبار کھولے جا رہے ہیں تو ممکن ہے کہ بے روزگاری میں کمی آئے۔