اٹلی کے اخبار میں 10 صفحات کے تعزیت نامے
کرونا وائرس سے متاثر اٹلی میں روزانہ سیکڑوں افراد ہلاک ہورہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر قسم کی سرگرمیاں معطل ہیں اور اخبارات کے پاس شائع کرنے کے لیے زیادہ مواد نہیں۔ ان حالات میں اٹلی کے ایک اخبار میں 10 صفحات کے تعزیت نامے شائع ہوئے ہیں۔
اٹلی کا شمالی علاقہ لومبارڈو وائرس سے شدید متاثر ہوا ہے۔ اس کے اخبار لیکو ڈی برگامو میں چند کالم یا ایک آدھ صفحات پر تعزیت نامے شائع ہوتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے وائرس پھیلتا گیا، تعزیت ناموں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی۔ 13 مارچ کی اشاعت میں پورے 10 صفحات ہلاک ہونے والوں کی یاد میں شائع کیے گئے۔
اٹلی میں اتوار کو 368 اور پیر کو 349 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد مرنے والوں کی تعداد 2100 سے زیادہ ہوگئی جبکہ وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد 28 ہزار ہے۔
مونزا اسپتال کے ڈاکٹر روبرٹو رونا نے صورتحال کے بارے میں کہا کہ ہمیں بیماری کی لہر نہیں، سونامی کا سامنا ہے۔
کرونا وائرس: عالمی معیشت کو دو اعشاریہ سات کھرب ڈالر کا نقصان ہوگا؟
کرونا وائرس کی وبا عالمی معیشت کو کتنا نقصان پہنچائے گی اس بارے میں متعلقہ عالمی اداروں کے اعداد و شمار میں کافی فرق نظر آتا ہے۔
بلوم برگ کا تخمینہ ہے کہ اس وبا کے ختم ہونے تک دنیا کو معاشی طور پر دو اعشاریہ سات کھرب امریکی ڈالر کے مساوی نقصان ہو چکا ہوگا، جبکہ ایشین ڈیولپمنٹ بنک کے مطابق معاشی نقصان کی سطح کہیں کم ہوگی۔
معاشیات کے ایک ماہر اور جاگو یونیورسٹی میں مارکٹنگ کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر بخاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف تین ملکوں یعنی امریکہ، چین اور بھارت کی مجموعی معیشت کا ہجم چون کھرب ڈالر سے زیادہ ہے جبکہ باقی دنیا کو بھی اگر اس میں شامل کر لیا جائے، تو اس کا ہجم بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کرونا وائرس کی قیمت عالمی معیشت میں تین سے پانچ فیصد کمی کی صورت میں ادا کرنی پڑے گی۔
انہوں نے بتایا کہ امکان یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان افریقی ممالک کو اٹھانا پڑے گا، کیونکہ چین کی صنعت کا خام مال زیادہ تر وہیں سے آتا ہے اور اسوقت چینی صنعت دشواریوں کا شکار ہے۔
ڈاکٹر ظفر بخاری کا مزید کہنا تھا کہ ماہرین کا خیال ہے کہ اس سال اگست تک کرونا وائرس کے مسئلے پر قابو پا لیا جائے گا، جسکے بعد ساری دنیا میں معاشی سرگرمیاں پھر سے شروع ہو سکیں گی۔
خیال رہے کرونا وائرس چین سے شروع ہوا تھا جو دنیا کی ایک بہت بڑی معیشت ہے اور وہاں اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے لاک ڈاؤن کے بعد جن جن ملکوں میں یہ وائرس جاتا رہا وہاں لاک ڈاؤن کی صورت حال بنتی گئی۔
اسوقت صورت حال یہ ہے کہ ایئرلائنوں کی پروازیں معطل ہیں لوگوں کی آمد و رفت بند ہے، سیاحت نہ ہونے کے برابر ہے اور تقریباً ہر ملک میں جہاں یہ وائرس پہنچا ہے اسے محدود کرنے کے لئے کاروباری سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کانگریس سے 850 ارب ڈالر ہنگامی پیکج کی منظوری کا خواہاں
کرونا وائرس کی وجہ سے کاروبار اور ٹیکس دہندگان کو پہنچنے والے مالی نقصان کے ازالے کیلئے، وائٹ ہاؤس نے منگل کے روز کانگریس سے کہا ہے کہ 850 ارب ڈالر کے ہنگامی مالی معاونت کے پیکج کی منظوری دے۔
سن 2008 کی کساد بازاری کے بعد، یہ سب سے دور رس نتائج کا حامل امدادی پیکج ہے۔
امریکہ کے وزیر خزانہ، سٹیو منوچن سینیٹ میں موجود ری پبلکن ارکان کے سامنے اس پیکج کا خاکہ رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ عہدیداروں کو توقع ہے کہ کانگریس رواں ہفتے اس پیکج کی منظوری دے گی۔
سینیٹ میں اکثریت رکھنے والی ریپبلکن جماعت کے قائد، سینیٹر مچ میکونل نے منگل کے روز سینیٹ کے اجلاس کی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے اس پیکج پر فوری اقدام کا وعدہ کیا۔
سن 2008 کے بینک بیل آؤٹ پیکج یا سن 2009 کے ریکوری ایکٹ کی نسبت یہ پیکج کہیں بڑا ہے۔ اس پیکج میں سے وائٹ ہاؤس اجرتوں پر کام کرنے والوں کیلئے ٹیکس ادائیگی میں بڑی کٹوتیاں دیگا اور پچاس ارب ڈالر، ایئر لائین کمپنیوں اور چھوٹے کاروباروں کی مدد کیلئے مختص کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کو امید ہے کہ یہ اقدام جلد ہی منظور ہو جائے گا، ممکنہ طور پر اسی ہفتے۔
یہ ایک بڑی سیاسی ذمہ داری ہے جو کہ انتظامیہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کو قابو میں رکھنے کیلئے اٹھا رہی ہے، کیونکہ امریکی طرزِ زندگی میں زبردست خلل پیدا ہوا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے پیر کے روز کیپیٹل ہل پر سینیٹروں کو ابتدائی بریفنگ دی اور اس امید کا اظہار کیا کہ کانگریس جلد از جلد اس پیکج کی منظوری دے گی۔
وائٹ ہاؤس کے اقتصادی مشیر لیری کُڈلو نے کہا ہے کہ اس وقت فوری توجہ دینے اور تیزی سے کام نمٹانے کی ضرورت ہے۔
ملک بند کیا تو عوام بھوک سے مرنا شروع ہوجائیں گے
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرونا وائرس سے ملک میں افراتفری پھیل رہی ہے۔ ملک بند کرنے پر غور کیا لیکن ڈر ہے کہ معاشی مشکلات کے شکار عوام بھوک سے مرنا شروع ہوجائیں گے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ بحران سے فائدہ اٹھانے والے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ریاست بھرپور کارروائی کرے گی۔
سرکاری ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کرونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں میں سے 97 فیصد مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں اور صرف تین فیصد اموات کا امکان ہے۔ یہ وائرس پھیلے گا لیکن ہمیں اس سے لڑنا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے خلاف چین سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ ہمارے زائرین ایران گئے تو انہیں وہاں سے کرونا وائرس لاحق ہوا جو ہمارے ملک میں پھیلا۔ میں بالخصوص بلوچستان حکومت اور فوج کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے ایران سے آنے والے زائرین کو قرنطینہ میں رکھا اور حالات سے بخوبی نمٹے۔ اب تک 9 لاکھ افراد کو ایئرپورٹس پر اسکین کیا جاچکا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں پہلا کیس 26 فروری کو رپورٹ ہوا۔ ہمیں اندازہ تھا کہ یہ وائرس یہاں بھی تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ 20 کیس سامنے آنے پر قومی سلامتی کا اجلاس بلاکر دنیا بھر کے کیسز کا جائزہ لیا۔ اٹلی لاک ڈاؤن ہوا، برطانیہ کی سوچ مختلف ہے، امریکہ نے شروع میں کچھ نہیں کیا اور ایک دم پورے کے پورے شہر بند کردیے۔
ہم نے بھی سوچا کہ ملک بند کردیا جائے لیکن میں قوم کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ویسے حالات نہیں جیسے یورپ اور امریکہ کے ہیں۔ یہاں ایک چوتھائی آبادی بہت غریب ہے۔ معاشی مشکلات ہیں۔ اگر ہم شہر کے شہر بند کردیں گے تو لوگ بھوک سے مرجائیں گے۔ اس لیے ہمیں بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ ہم نے اسکول اور کالج پہلے مرحلے میں بند کیے۔ کمیٹی بنائی جو وزرا سے رابطے میں ہے۔ این ڈی ایم اے کو بھی فعال کیا۔ ماسک موجود ہیں لیکن وینٹی لیٹرز نہیں تھے۔ این ڈی ایم اے کے ذریعے مزید وینٹی لیٹر مشینیں منگوائی جارہی ہیں۔ میڈیکل کی کور کمیٹی مسلسل مشاورت کررہی ہے کہ دنیا میں کرونا وائرس کے خلاف کیا اقدامات کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین ہماری مدد کررہا ہے۔ ہمیں چین سے سبق سیکھنا ہے کہ کیسے اس وائرس سے لڑسکتے ہیں۔ صدر عارف علوی اسی لیے چین گئے ہوئے ہیں۔ حکومت عوام کو آگاہ کرے گی کہ اس وائرس سے کیسے بچنا چاہیے۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ عام نزلہ زکام کو کرونا وائرس سمجھ کر ٹیسٹ نہ کروائیں۔ پاکستان کے پاس اس قدر کٹس موجود نہیں کہ ہر ایک کا ٹیسٹ کیا جاسکے۔
عمران خان نے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وائرس کے 90 فیصد مریض خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ عوام زیادہ وقت گھروں میں گزاریں، ملنا جلنا بند کریں اور مصافحہ کرنے سے گریز کریں۔ طبی عملے کو جہاد کرنا ہے۔ حکومت سے جو ہوسکا، سہولت اور مشینری فراہم کرے گی۔