کونسل آف یورپ کے قانونی ماہرین کے پینل کا کہنا ہے کہ ترکی میں صدر کو زیادہ اختیارات دینے کی مجوزہ آئینی ترامیم جمہوریت کو "پیچھے لے جانے والا ایک خطرناک قدم " ہے۔
اس پینل کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان ترامیم کی بنا پر صدر کو" کسی بھی بنیاد پر پارلیمان کو تحلیل کرنے کا اختیار مل جا ئے گا جو کہ بنیادی طور پر صدارتی نظام سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ "
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ "استحکام کو یقینی بنانے اور ماضی کے عشروں کی کمزور اتحادی (حکومتوں) کی واپسی کو روکنے کے لیے" وہ ایک طاقتور صدارتی انتظامیہ کے متمنی ہیں۔
دوسری طرف حزب مخالف کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی ترکی کو ایک شخصی حکومت کی طرف لے جاسکتی ہے جس سے بنیادی حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔
کونسل آف یورپ کے قانونی پینل کی رائے کی پابندی کرنا ترکی کے لئے لازم نہیں ہے جو 1950 میں اس 47 رکنی تنظیم میں شامل ہوا تھا۔
ترکی کے عوام ان مجوزہ اصلاحات سے متعلق 16 اپریل کو ہونے والی رائے شماری میں حصہ لیں گے اور پارلیمان سے منطور کردہ اس قانون سازی کی منظوری کے لئے سادہ اکثریت کی ضرورت ہو گی۔
پارلیمان کی طرف سے جنوری میں ان مجوزہ اصلاحات کے بل کی منظوری کے بعد صدر اردوان نے گزشتہ ماہ اس پر دستخط کیے تھے۔
اس قانونی سازی کے تحت صدر کو ہنگامی حالت کے نفاذ، وزیروں اور دیگر ریاستی عہدیداروں کی تعیناتی اور پارلیمان کو تحلیل کرنے کا اختیار مل جائے گا۔ ترکی کی حزب مخالف کی دو بڑی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان مجوزہ ترامیم کی وجہ سے اختیارات کا توازن اردوان کے حق میں ہو جائے گا جن کو پہلے ہی ریاستی امور میں بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے۔
کونسل آف یورپ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کی تشویش ہے کہ ان ترامیم کی وجہ سے صدر کو تنہا انتظامی اختیارات استعمال کرنے کی اجازت مل جائے گی جس کے بعد"انہیں وزرا اور اعلیٰ عہدیداروں کو تعینات کرنے انہیں برطرف کرنے کا اختیار مل جائے گا۔"
انہوں نے کہا کہ اس سے ان کی نظر میں انتظامیہ کی عدالتی نگرانی کا پہلے ہی ناکافی نظام کمزور ہو جائے گا۔
صدر اردوان کا کہنا ہے کہ شدت پسند گروپ داعش اور کرد عسکریت پسندوں کی طرف سے درپیش سکیورٹی کے خطرات اور گزشتہ جولائی میں ناکام فوجی بغاوت جیسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے سیاسی نظام میں اصلاحات ضروری ہیں۔
گزشتہ سال جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں کم ازکم 240 افراد ہلاک ہو گئے۔
کونسل آف یورپ نے ترکی کی پارلیمان کی طرف سے ایک ایسے وقت ان ترامیم کو منظور کرنے پر تنقید کی جب ملک کے حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت کے کئی قانون ساز جیل میں بند ہیں۔