ترکی کی پارلیمان نے متنازع آئینی اصلاحاتی پیکج کی منظوری دے دی ہے جس سے ملک میں صدارتی نظام سے متعلق ایسے ریفرنڈم کی راہ ہموار ہو گئی ہے جوصدر رجب اردوان کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ کا سبب بنے گا۔
اسمبلی کے رات بھر جاری رہنے والے اجلاس کے بعد ہفتہ کو علی الصبح قانون سازوں نے حکمران جماعت کی طرف سے پیش کی گئی ترامیم کے حق میں فیصلہ دیا۔
550 کے ایوان میں حاضر 488 ارکان نے رائے شماری میں حصہ لیا جس میں سے 339 نے ترامیم کے حق میں ووٹ دیا جب کہ 142 اس کے خلاف تھے۔
پانچ ارکان نے بیلٹ پیپر کو سادہ ہی رہنے دیا جب کہ دو ووٹ مسترد کر دیے گئے۔
ترک وزیراعظم بن علی یلدرم کا کہنا تھا کہ " اب ہم اسے (ترامیم کو) لوگوں کے سپرد کر رہے ہیں جو کہ اس کے اصل مالک ہیں۔ اب یہ عوام کا فیصلہ ہے۔"
حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے مطابق توقع ہے کہ ریفرنڈم 26 مارچ سے پہلے کسی وقت منعقد کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں اپریل کے وسط سے زیادہ تاخیر نہیں کی جا سکتی۔
اردوان کی جماعت کا موقف رہا ہے کہ ملک کو درپیش کثیر الجہت چیلنجز سے نمٹنے کے لیے صدر کے منصب کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ناقدین کے مطابق اردوان کی طرف سے پہلے ہی اختیارات کا بہت بڑھ کر استعمال کیا جا چکا ہے۔