اسرائیل اور حماس کی جنگ کے نہ صرف خطے بلکہ مختلف ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ بیشتر مسلم ممالک تو اسرائیل کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں تو وہیں اسرائیل کے بعض حلیف ممالک بھی اسے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے تاحال ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے، تاہم عالمی سیاست میں یہ معاملہ موضوعِ بحث ہے۔
کولمبین صدر اور اسرائیلی سفیر کی نوک جھونک
جنوبی امریکہ کے ملک کولمیبا کے وزیرِ خارجہ نے اسرائیلی سفیر کی جانب سے کولمبین صدر سے متعلق ریمارکس کے بعد اُنہیں ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے۔
کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کا دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں کے یہودیوں پر ظلم و ستم سے موازنہ کیا تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ تھا کہ "جمہوری لوگ بین الاقوامی سیاست میں نازی ازم کو دوبارہ قدم جمانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔"
کولمبیا میں اسرائیل کے سفیر گالی ڈاگان نے صدر کی پوسٹ پر براہ راست اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ معصوم شہریوں کے خلاف دہشت گردی کی مذمت کریں۔
اس پر کولمبیا کے صدر نے جواب دیا تھا کہ "دہشت گردی یہ ہے کہ معصوم بچوں کو مارا جائے، چاہے وہ کولمبیا میں ہو یا فلسطین میں۔"
خیال رہے کہ کولمبیا کا شمار اسرائیل کے حلیف ممالک میں ہوتا ہے اور یہ اسرائیل سے اسلحے کا بھی بڑا خریدار ہے۔
اسرائیل کا اسپین سے گلہ
میڈرڈ میں اسرائیلی سفارت خانے نے دعویٰ کیا ہے کہ اسپین کے تین اعلٰی حکام حماس کا ساتھ دے رہے ہیں۔
سفارت خانے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اسپین کی حکومت میں شامل تین وزرا نے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں پر تنقید کی ہے۔
اسرائیلی سفارت خانے کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "ہم ان تین وزرا کے بیانات کی مذمت کرتے ہیں۔"
اسرائیلی سفارت خانے کی جانب سے اسپین کے تین وزرا کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔ تاہم دوسری جانب اسپین کی حکومت نے ان دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اسپین کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزرا نے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو 'نسل کشی' قرار دیا تھا۔
اسرائیل، اسکاٹ لینڈ
اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف نے بھی چند روز قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ کئی لاکھ لوگوں کو اجتماعی سزا دینے کی کوئی منطق نہیں ہے۔
حمزہ یوسف کے ساس اور سسر بھی اس وقت غزہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
عرب نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کو دیے گئے انٹرویو میں اُنہوں نے اسرائیل کی غزہ میں کارروائیوں پر تنقید کی تھی۔
حمزہ یوسف کا کہنا تھا کہ وہ بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ غزہ تک امداد اور اشیائے خورو نوش پہنچانے کے انتظامات کیے جائیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگوں کو وہاں سے نکلنے کے لیے محفوظ راستہ بھی دیا جانا چاہیے۔
آئرلینڈ کے صدر کی تنقید
دوسری جانب آئرلینڈ کے صدر مائیکل ڈی ہگنز نے یورپی یونین کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لین پر اسرائیل، حماس جنگ کے حوالے سے اُن کے پالیسی بیان تنقید کی ہے۔
پیر کو روم میں ورلڈ فوڈ فورم میں خطاب کرتے ہوئے آئرش صدر کا کہنا تھا کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں کے دوران بین الاقوامی قوانین کی پاسداری ضروری ہے۔
خیال رہے کہ یورپی یونین کی سربراہ نے 'ایکس' پر اپنے بیان میں حماس کے اسرائیل پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
آئرلینڈ کے وزیرِ اعظم نے بھی اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بجلی منقطع کرنے، خوارک اور پانی کی بندش پر مذمت کی تھی۔
ناروے، روس، جنوبی افریقہ اور وینزویلا نے بھی غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔
خیال رہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے اور غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی کے بعد اب تک چار ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فضائی کارروائیاں جاری ہیں جب کہ حماس کی جانب سے اب بھی اسرائیل کی جانب راکٹ داغے جا رہے ہیں۔
امریکہ، جرمنی، فرانس، بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک اسرائیل کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں۔ دوسری جانب دنیا کے بیشتر مسلم ممالک غزہ میں اسرائیلی کی جوابی کارروائیوں کی مذمت کر رہے ہیں۔
اس خبر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔
فورم