واشنگٹن —
امریکہ کے ایک موقر اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا میں تقریباً 40 ایسے ملک ہیں جہاں 2014ء کے دوران فوجی بغاوت کا خطرہ کافی زیادہ ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' کی رپورٹ میں جن ممالک میں اس خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے اُن میں بعض افریقی ملکوں کے علاوہ پاکستان اور افغانستان بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی بغاوت کسی بھی ملک کے لیے اچھی چیز نہیں کیوں کہ اس کی وجہ سے قانون کی حکمرانی کمزور ہوتی ہے اور یہ نظامِ حکومت میں بد نظمی کا باعث بنتی ہے۔
اخبار کے مطابق فوجی بغاوتوں کے نتیجے میں جمہوری اداروں کو نقصان پہنچتا ہے جو ان ملکوں میں تشدد اور ظلم کو جنم دیتا ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سیاسی امور کے ماہر جے الفیلڈر گزشتہ تین سال سے ایک ایسے ’ماڈ ل‘ پر کا م کر رہے ہیں جس کی بنا پر دنیا کےتقریباً ہر ملک کے بارے میں یہ پیش گوئی کرنا ممکن ہے کہ آیا وہاں فوجی بغاوت کا امکان ہے یہ نہیں۔
جناب الفیلڈر نے رپورٹ میں تقریباً ایک درجن کے قریب اسباب کا حوالہ دیا ہے جن کی بنیاد پر، ان کے بقول، کسی ملک میں فوجی بغاوت ہو سکتی ہے۔
الفیلڈر نے 1960ء سے 2010ء تک کے حالات کو اپنے ماڈل پر پرکھا اور اسے مزید بہتر کیا ہے جس کے بعد کسی بھی ملک میں ماضی کی فوجی بغاوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اب یہ پیش گوئی کرنا ممکن ہے کہ کیا اس ملک میں مستقبل میں بھی اس کا امکان ہے یا نہیں۔
اس ماڈل کے مطابق دنیا میں وہ ملک جہاں فوجی بغاوت کا خطرہ تو ہے لیکن اس کے امکانات 50 فیصد سے کم ہیں، ان میں مغربی افریقہ کا ملک گنی اور مالی شامل ہیں، جن میں بالترتیب فوجی بغاوت کا امکان 26.5 اور 22.7 فیصد جب کہ مڈغاسکر میں اس کا امکان 23.9 فیصد ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ شرح کافی زیادہ ہے اوران ملکوں کے لیے یہ ایک پریشان کن صورت حال ہے۔
ماڈل کے مطابق دوسرے وہ ملک ہیں جہا ں فوجی بغاوت کے وقو ع پزیر ہونے کی شرح کافی کم یعنی پانچ فیصد ہے۔ اس میں نصف وہ ہیں جہاں اس کا امکان 1.5 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
اس تحقیق میں ایسے واضح اشارے ہیں جس کی بنیاد پر صحارا خطے کے افریقی ممالک کو نویں نمبر پر رکھا گیا ہے جہاں فوجی بغاوت کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔
اس میں وہ افریقی ملک شامل نہیں جہاں سیاسی استحکام ہے۔ لیکن ماڈل کے مطابق فوجی بغاوت کا خطرہ سب سے زیادہ افریقہ کے صحرائے صحارا کی زیریں ساحلی پٹی اور وسطی علاقے میں موجود ممالک کو لاحق ہے۔
سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے یہ ملک ابھی بہت پسماندہ ہیں اور یہاں معاشی ترقی ہونا بہت ضروری ہے۔
ان افریقی ملکوں کے علاوہ فوجی بغاوت کا خطرہ سب سے زیادہ تھائی لینڈ میں ہے جہاں یہ امکان 10.9 فیصد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تھائی لینڈ دنیا میں وہ واحد ملک ہے جہا ں سب سے زیادہ مرتبہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے اور یہ ملک آج کل بھی مظاہروں کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔
ماڈل کے مطابق پاکستا ن اور افغانستان میں بھی فوجی بغاوت کا خطرہ موجود ہے لیکن اس کی وجوہات دوسری ہیں۔ افغانستان میں اس کی وجہ مختلف نسلی اور سیاسی گروہوں کے درمیان رسہ کشی ہے۔ اس کے برعکس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں فوج ایک آزاد رائے رکھتی ہے جو بغاوت کی ایک وجہ بن سکتی ہے۔
لیکن ماڈل کے مطابق کمزور سیاسی ڈھانچہ ان دونوں ملکوں میں اس خطرے کی ایک بڑی مشترک وجہ ہے۔
مصر میں جہاں 2013 ء میں ایک فوجی بغاوت ہوئی وہاں 2014ء میں بھی ایک اور فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے اور اس کا امکان 9 فیصد ہے۔
اس کے علاوہ ہیٹی اور ایکواڈور لاطینی امریکہ کے وہ ملک ہیں جہاں فوجی بغاوت کا خدشہ کافی زیادہ ہے اور اس کا امکان بالترتیب 9.2 اور 8.5 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایران میں فوجی بغاوت کا امکان کم ہے باوجود یکہ وہاں سیاسی رسہ کشی جاری رہتی ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' کی رپورٹ میں جن ممالک میں اس خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے اُن میں بعض افریقی ملکوں کے علاوہ پاکستان اور افغانستان بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی بغاوت کسی بھی ملک کے لیے اچھی چیز نہیں کیوں کہ اس کی وجہ سے قانون کی حکمرانی کمزور ہوتی ہے اور یہ نظامِ حکومت میں بد نظمی کا باعث بنتی ہے۔
اخبار کے مطابق فوجی بغاوتوں کے نتیجے میں جمہوری اداروں کو نقصان پہنچتا ہے جو ان ملکوں میں تشدد اور ظلم کو جنم دیتا ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سیاسی امور کے ماہر جے الفیلڈر گزشتہ تین سال سے ایک ایسے ’ماڈ ل‘ پر کا م کر رہے ہیں جس کی بنا پر دنیا کےتقریباً ہر ملک کے بارے میں یہ پیش گوئی کرنا ممکن ہے کہ آیا وہاں فوجی بغاوت کا امکان ہے یہ نہیں۔
جناب الفیلڈر نے رپورٹ میں تقریباً ایک درجن کے قریب اسباب کا حوالہ دیا ہے جن کی بنیاد پر، ان کے بقول، کسی ملک میں فوجی بغاوت ہو سکتی ہے۔
الفیلڈر نے 1960ء سے 2010ء تک کے حالات کو اپنے ماڈل پر پرکھا اور اسے مزید بہتر کیا ہے جس کے بعد کسی بھی ملک میں ماضی کی فوجی بغاوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اب یہ پیش گوئی کرنا ممکن ہے کہ کیا اس ملک میں مستقبل میں بھی اس کا امکان ہے یا نہیں۔
اس ماڈل کے مطابق دنیا میں وہ ملک جہاں فوجی بغاوت کا خطرہ تو ہے لیکن اس کے امکانات 50 فیصد سے کم ہیں، ان میں مغربی افریقہ کا ملک گنی اور مالی شامل ہیں، جن میں بالترتیب فوجی بغاوت کا امکان 26.5 اور 22.7 فیصد جب کہ مڈغاسکر میں اس کا امکان 23.9 فیصد ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ شرح کافی زیادہ ہے اوران ملکوں کے لیے یہ ایک پریشان کن صورت حال ہے۔
ماڈل کے مطابق دوسرے وہ ملک ہیں جہا ں فوجی بغاوت کے وقو ع پزیر ہونے کی شرح کافی کم یعنی پانچ فیصد ہے۔ اس میں نصف وہ ہیں جہاں اس کا امکان 1.5 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
اس تحقیق میں ایسے واضح اشارے ہیں جس کی بنیاد پر صحارا خطے کے افریقی ممالک کو نویں نمبر پر رکھا گیا ہے جہاں فوجی بغاوت کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔
اس میں وہ افریقی ملک شامل نہیں جہاں سیاسی استحکام ہے۔ لیکن ماڈل کے مطابق فوجی بغاوت کا خطرہ سب سے زیادہ افریقہ کے صحرائے صحارا کی زیریں ساحلی پٹی اور وسطی علاقے میں موجود ممالک کو لاحق ہے۔
سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے یہ ملک ابھی بہت پسماندہ ہیں اور یہاں معاشی ترقی ہونا بہت ضروری ہے۔
ان افریقی ملکوں کے علاوہ فوجی بغاوت کا خطرہ سب سے زیادہ تھائی لینڈ میں ہے جہاں یہ امکان 10.9 فیصد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تھائی لینڈ دنیا میں وہ واحد ملک ہے جہا ں سب سے زیادہ مرتبہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے اور یہ ملک آج کل بھی مظاہروں کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔
ماڈل کے مطابق پاکستا ن اور افغانستان میں بھی فوجی بغاوت کا خطرہ موجود ہے لیکن اس کی وجوہات دوسری ہیں۔ افغانستان میں اس کی وجہ مختلف نسلی اور سیاسی گروہوں کے درمیان رسہ کشی ہے۔ اس کے برعکس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں فوج ایک آزاد رائے رکھتی ہے جو بغاوت کی ایک وجہ بن سکتی ہے۔
لیکن ماڈل کے مطابق کمزور سیاسی ڈھانچہ ان دونوں ملکوں میں اس خطرے کی ایک بڑی مشترک وجہ ہے۔
مصر میں جہاں 2013 ء میں ایک فوجی بغاوت ہوئی وہاں 2014ء میں بھی ایک اور فوجی بغاوت کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے اور اس کا امکان 9 فیصد ہے۔
اس کے علاوہ ہیٹی اور ایکواڈور لاطینی امریکہ کے وہ ملک ہیں جہاں فوجی بغاوت کا خدشہ کافی زیادہ ہے اور اس کا امکان بالترتیب 9.2 اور 8.5 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایران میں فوجی بغاوت کا امکان کم ہے باوجود یکہ وہاں سیاسی رسہ کشی جاری رہتی ہے۔