اسلام آباد —
پاکستان کی ایک احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کو ان کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے ایک پرانے مقدمے سے بری کر دیا ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں احتساب عدالت نے نیب کی طرف سے دائر پولو گراؤنڈ ریفرنس میں ان کی بریت کا فیصلہ سنایا۔
آصف زرداری کے خلاف قومی احتساب بیورو نے پانچ ریفرنس دائر کر رکھے تھے جن پر کارروائی 2008ء میں ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد نہیں ہو سکی تھیں کیوں کہ مدت صدارت کے دوران اُنھیں ایسی کسی بھی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل تھا۔
لیکن گزشتہ سال ستمبر میں ان کی مدت صدارت کے ختم ہوتے ہی دوبارہ ان مقدمات پر عدالتی کارروائی شروع کی گئی تھی۔
جس ریفرنس کا فیصلہ بدھ کو سنایا گیا اُس میں یہ الزام تھا کہ انھوں نے نوے کی دہائی میں ذاتی استعمال کے لیے سرکاری خرچ پر وزیراعظم ہاؤس میں پولو گراؤنڈ تعمیر کروایا تھا۔
نوے کی دہائی میں آصف علی زرداری کی اہلیہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم تھیں۔
احتساب عدالت نے کہا کہ سابق صدر کے خلاف دائر ٹریکٹروں کی خریداری کی سرکاری اسکیم میں مبینہ بدعنوانی اور اے آر وائی گولڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ چار جون کو سنائے جائے گا۔
سابق صدر کے وکیل فاروق نائیک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دیگر دو کیسز جن میں ایس جی ایس اور کوٹیکنا شامل ہیں پر استغاثہ نے مزید گواہ پیش کرنے کا کہا ہے۔
"اب عدالت نے ان سے کہا ہے کہ وہ پیش کریں جنہیں وہ پیش کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے بعد ہی اس پر فیصلہ آئے گا۔"
آصف زرداری کے وکلاء نے عدالت سے درخواست کر رکھی تھی کہ اب تک ہونے والی کسی بھی کارروائی میں ان کے بقول ایسے شواہد سامنے نہیں آسکے جس کی بنا پر سابق صدر پر الزام ثابت ہوتا ہو لہذا انھیں بری کیا جائے۔
احتساب عدالت نے بدھ کو ایس جی ایس اور کوٹکنا ریفرنس پر مزید شواہد پیش کرنے حکم دیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ آصف زرداری کسی بھی ریفرنس میں مرکزی ملزم نہیں جب کہ عدالت تمام مرکزی ملزمان کو پہلے ہی بری کر چکی ہے۔
آصف زرداری کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ تمام مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے۔
بدھ کو اسلام آباد میں احتساب عدالت نے نیب کی طرف سے دائر پولو گراؤنڈ ریفرنس میں ان کی بریت کا فیصلہ سنایا۔
آصف زرداری کے خلاف قومی احتساب بیورو نے پانچ ریفرنس دائر کر رکھے تھے جن پر کارروائی 2008ء میں ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد نہیں ہو سکی تھیں کیوں کہ مدت صدارت کے دوران اُنھیں ایسی کسی بھی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل تھا۔
لیکن گزشتہ سال ستمبر میں ان کی مدت صدارت کے ختم ہوتے ہی دوبارہ ان مقدمات پر عدالتی کارروائی شروع کی گئی تھی۔
جس ریفرنس کا فیصلہ بدھ کو سنایا گیا اُس میں یہ الزام تھا کہ انھوں نے نوے کی دہائی میں ذاتی استعمال کے لیے سرکاری خرچ پر وزیراعظم ہاؤس میں پولو گراؤنڈ تعمیر کروایا تھا۔
نوے کی دہائی میں آصف علی زرداری کی اہلیہ بے نظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم تھیں۔
احتساب عدالت نے کہا کہ سابق صدر کے خلاف دائر ٹریکٹروں کی خریداری کی سرکاری اسکیم میں مبینہ بدعنوانی اور اے آر وائی گولڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ چار جون کو سنائے جائے گا۔
سابق صدر کے وکیل فاروق نائیک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دیگر دو کیسز جن میں ایس جی ایس اور کوٹیکنا شامل ہیں پر استغاثہ نے مزید گواہ پیش کرنے کا کہا ہے۔
"اب عدالت نے ان سے کہا ہے کہ وہ پیش کریں جنہیں وہ پیش کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے بعد ہی اس پر فیصلہ آئے گا۔"
آصف زرداری کے وکلاء نے عدالت سے درخواست کر رکھی تھی کہ اب تک ہونے والی کسی بھی کارروائی میں ان کے بقول ایسے شواہد سامنے نہیں آسکے جس کی بنا پر سابق صدر پر الزام ثابت ہوتا ہو لہذا انھیں بری کیا جائے۔
احتساب عدالت نے بدھ کو ایس جی ایس اور کوٹکنا ریفرنس پر مزید شواہد پیش کرنے حکم دیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ آصف زرداری کسی بھی ریفرنس میں مرکزی ملزم نہیں جب کہ عدالت تمام مرکزی ملزمان کو پہلے ہی بری کر چکی ہے۔
آصف زرداری کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ تمام مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے۔