رسائی کے لنکس

گیلانی کی پارلیمان سے نااہلیت کا نوٹیفیکیشن جاری


عدالتی فیصلے کے مطابق یوسف رضا گیلانی 26 اپریل سے پارلیمنٹ کی رکنیت اور وزارت عظمیٰ کے منصب سے نااہل ہوگئے تھے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق یوسف رضا گیلانی 26 اپریل سے پارلیمنٹ کی رکنیت اور وزارت عظمیٰ کے منصب سے نااہل ہوگئے تھے۔

اس پیش رفت کے بعد مرکز میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت ختم ہو گئی ہے اور عدالت عظمٰی کی ہدایات کی روشنی میں صدر آصف علی زرداری جمہوری نظام پارلیمان کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے آئینی اقدامات کرنے کے پابند ہیں۔

پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی جانب سے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ نے منگل کو وزیر اعظم کی اہلیت سے متعلق آئینی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کے وہ 26 اپریل کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں یوسف رضا گیلانی کی پارلیمان سے رکنیت کی منسوخی کا نوٹیفیشکن جاری کرے۔

عدالت عظمٰی کے احکامات کے موصول ہونے کے بعد قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس شاکر اللہ جان نے الیکشن کمشن کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جس کے اختتام پر مجلس شوری یعنی پارلیمان سے مسٹر گیلانی کی نااہلیت کا باضابطہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔

اس پیش رفت کے بعد مرکز میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت ختم ہو گئی ہے اور عدالت عظمٰی کی ہدایات کی روشنی میں صدر آصف علی زرداری جمہوری پارلیمانی نظام کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے آئینی اقدامات کرنے کے پابند ہیں۔

سپریم کورٹ کے سینیر وکیل سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے نے اسپیکر قومی اور الیکشن کمیشن کی حدود کا تعین بھی کردیا ہے۔

’’میں سمجھتا ہوں قانونی طورآج کے بعد قانون یہی سمجھا جائے گا کہ جو آئین کا ارٹیکل 63 (2) ہے وہ اُن معاملات کے حوالے سے تو اسپیکر کو اور الیکشن کمیشن کو ایک کردار دیتا ہے جہاں کوئی عدالتی فیصلہ نہ ہو، لیکن جب ایک عدالتی فیصلہ آجائےتو اُس کے بعد اسپیکر اورالیکشن کمیشن کا رول یہ نہیں ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے اوپر بطور جج، بطور ایک ایپلیٹ فورم بیٹھے اور اس پر اپنا فیصلہ سنائے۔‘‘

پیپلز پارٹی کی قیادت نے پارٹی کے اندر اورپارلیمان میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کا عمل شروع کر دیا ہے اور توقع ہے کہ جلد قومی اسمبلی میں ایک نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے ایک سات رکنی بینچ نے 26 اپریل کو وزیر اعظم گیلانی کو عدالت کی حکم عدولی پر توہین عدالت کے جرم میں عدالت کی برخاستگی تک کی سزا سنائی تھی جس کا دورانیہ ایک منٹ سے بھی کم تھا۔

مگر حکومت کا اصرار تھا کہ سزا یافتہ ہونے کے باوجود مسٹر گیلانی پارلیمان کی رکنیت سے نااہل نہیں ہوئے کیونکہ عدالتی فیصلے میں ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔ اس نکتہ نظر کی توثیق میں اسپیکر قومی اسمبلی فہیمدہ مرزا نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمٰی کے احکامات کے برعکس یہ فیصلہ سنایا تھا کہ وزیر اعظم بدستور رکن پارلیمان اور ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔

لیکن منگل کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وزیر اعظم کی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی لہذا 26 اپریل کا فیصلہ حتمی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری

’’جیسا کہ سات محترم ججوں پر مشتمل بینچ نے ... سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب پایا اور اُنھیں عدالت کی برخاستگی تک کی سزا سنائی، اور چونکہ (عدالتی) فیصلے کے خلاف کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی یہ فیصلہ حتمی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اس لیے سید یوسف رضا گیلانی 26 اپریل 2012ء کو عدالتی فیصلے کے اعلان کے بعد سے مجلس شوریٰ (پارلیمان) کا رکن رہنے کے اہل نہیں رہے ... اس ہی تاریخ سے وزیر اعظم کے عہدے کو خالی سمجھا جائے۔‘‘

اس مقدمے کے درخواست گزاروں میں حزب مخالف کی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف بھی شامل تھیں۔

سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کی درخواست کی پیروی کرنے والے سینیئر وکیل حامد خان نے عدالتی کارروائی کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کے مسٹر گیلانی کی نااہلی کے فیصلے سے ملک میں کسی آئینی بحران کا امکان نہیں۔

’’بحران پیدا کرنا یا نا کرنا اس وقت صدر کے ہاتھ میں ہے، صدر چاہے تو فی الفور (کل) اجلاس بلا کر نیا وزیر اعظم منتخب کرا لے تو اس سے نظام کا تسلسل برقرار رہے گا جس کا سپریم کورٹ نے بھی ذکر کیا ہے۔‘‘

دریں اثناء ایوان صدر میں حکمران پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا ایک ہنگامی اجلاس صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم کی زیر صدارت ہوا جس میں عدالت عظمٰی کے فیصلے پر حکومت کا ممکنہ ردعمل زیر غور آیا۔

اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں بلائی گئی ہنگامی نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کے سینیئر رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اُن کی جماعت کو عدالت کے فیصلے پر تحفظات ہیں۔

قمر زمان کائرہ
قمر زمان کائرہ

’’ہم اپنے قانونی مشیروں اور اتحادیوں سے مشاورت کرنے کے بعد مستقبل کا حتمی لائحہ عمل سامنے لائیں گے ... (عدالتی) فیصلے کے بعد تعطل آیا ہے اُس کا فوری طور پر علاج کرنے کے لیے جب ہماری مشاورت ہو جاےی ہے تو پھر پارلیمنٹ ہی اس کا فورم ہے جو بھی فیصلہ وہ آپ کے ساتھ شیئر کریں گے۔‘‘

اس سے قبل منگل کو اپنے اختتامی دلائل میں اٹارنی جنرل عرفان قادر نےعدالت عظمٰی کے تین رکنی بنچ کو متنبہ کیا تھا کہ اگر اُنھوں نے اسپیکر کے فیصلے کے خلاف کوئی حکم جاری کیا تو پارلیمان اُسے کالعدم قرار دے دے گی۔

اُنھوں نے سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ کے اُس فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جس میں وزیر اعظم گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں سزا سنائی گئی، ایک بار پھر کہا کہ عدالت نے آئین کی شق 248 کی خلاف ورزی کی اور خدشہ ہے کہ عدالت کا نیا حکم بھی غیر آئینی ہو۔

اٹارنی جنرل کے عدلیہ مخالف دلائل پر چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ ان کا کام عدالت کی معاونت ہے اور بینچ ان بیانات کو قلمبند کر رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG