اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت نے پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو پر الزام تراشی کرنے پر امریکی خاتون بلاگر اور دستاویزی فلم پروڈیوسر سنتھیا ڈی رچی کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج جہانگیر اعوان نے امریکی خاتون سنتھیا ڈی رچی کے خلاف اندراجِ مقدمہ کی درخواست پر رواں ماہ 13 جون کو محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کر دیا۔
عدالت نے ایف آئی اے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو پر مبینہ الزام تراشی کرنے پر امریکی خاتون کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
دوسری جانب سنتھیا ڈی رچی کے وکیل نے وکالت کا معاوضہ ملنے تک مزید کسی عدالت میں اپیل دائر کرنے سے انکار کر دیا ہے جب کہ سنتھیا کا کہنا ہے کہ ان کے وکیل نے اُنہیں عدالت میں غلط طور پر پیش کیا اور ان کی ٹوئٹس کو جعلی کہا۔
سنتھیا کا مزید کہنا ہے کہ اُن کی تمام ٹوئٹس اصلی ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اسلام آباد کے صدر شکیل عباسی نے بے نظیر بھٹو پر الزامات عائد کرنے پر امریکی خاتون کے خلاف ایف آئی اے میں مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی تھی۔
علاوہ ازیں سنتھیا رچی کے خلاف اندراج مقدمہ کی ایک اور درخواست اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے۔ ندیم مغل نامی شہری کی اس درخواست پر اسلام آباد کی سیشن عدالت نے ایف آئی اے سے جواب طلب کر لیا ہے۔
پیر کو سماعت کے دوران جج جہانگیر اعوان نے ریمارکس دیے کہ دوسرے مقدمے میں ایف آئی اے کا جواب آجائے پھر دیکھ لیتے ہیں۔
عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ سنتھیا کی طرف سے اس بات کی کوئی تردید نہیں کی گئی کہ بے نظیر بھٹو سے متعلق ٹوئٹس انہوں نے نہیں کی۔ البتہ ان کے وکیل ناصر عظیم کی طرف سے عدالت میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سنتھیا ڈی رچی سے منسوب ٹوئٹس جعلی ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کو اس دنیا سے گئے 12 سال گزر چکے ہیں اور ان پر عائد الزامات اس سے پہلے کبھی بھی سامنے نہیں آئے۔ مرنے کے بارہ سال کے بعد ایک مرحوم سیاسی لیڈر کی کردار کشی کرنا بظاہر بدنیتی پر مبنی نظر آرہا ہے۔
اس معاملے پر سنتھیا ڈی رچی کا مؤقف حاصل کرنے کے لیے انہیں پیغام دیا گیا ہے۔ لیکن تاحال ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
سنتھیا کے وکیل کا مؤقف
اس بارے میں سنتھیا کے وکیل ناصر عظیم خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس کیس میں اعلیٰ عدالت میں اپیل کرنی ہے یا نہیں۔ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک پروفیشنل وکیل ہیں اور جب تک انہیں اس کیس کی فیس ادا نہیں کر دی جاتی وہ مزید کیس نہیں لڑ سکتے۔
اُن کے بقول آئندہ اس کیس میں کیا ہو گا اور کسی عدالت میں مزید کارروائی کرنی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں سنتھیا ڈی رچی کو معلوم ہو گا۔
اس سوال پر کہ آپ نے عدالت میں بے نظیر بھٹو سے متعلق ٹوئٹس کو جعلی قرار دیا جب کہ سنتھیا خود اسے اصلی قرار دے رہی ہیں؟ ناصر عظیم کا کہنا تھا کہ عدالت میں وکیل اپنے کلائنٹ کی مرضی سے ہر بات کرتا ہے۔
دوسری طرف سنتھیا ڈی رچی نے ٹوئٹر پر اپنے اکاؤنٹ سے ایک ٹوئٹ میں اپنے وکیل پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے عدالت میں انہیں غلط انداز میں پیش کیا اور ٹوئٹس کو جعلی قرار دیا۔ حالانکہ یہ سب اصلی ٹوئٹس تھیں۔
انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ ہم رحمان ملک کے خلاف کریمنل رپورٹ درج کرانا چاہ رہے تھے اور اچانک ان کے وکیل نے ان سے 20 لاکھ روپے طلب کیے۔ حالانکہ یہ معاملہ تھرڈ پارٹی کے ذریعے طے پایا تھا۔
مدعی مقدمہ کا مؤقف
عدالتی فیصلے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر اور درخواست گزار شکیل عباسی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایف آئی اے کو اب چاہیے کہ وہ فوری طور پر مقدمہ درج کر کے سنتھیا کو گرفتار کرے۔
انہوں نے کہا کہ سنتھیا نے جس طرح بے نظیر بھٹو کے خلاف توہین آمیز الزامات عائد کیے۔ ایسے میں ان کے خلاف چار سے پانچ مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے اس حوالے سے سائبر کرائم قوانین کے تحت عدالت اور ایف آئی اے کو مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی تھی کہ ملزمہ کو گرفتار کر کے اصل معاملے کو بھی سامنے لایا جائے کہ وہ کس کی ایما پر اور کن مقاصد کے لیے ایسے الزامات عائد کر رہی ہیں۔
سنتھیا ڈی رچی کون ہے؟
سنتھیا ڈی رچی کے تصدیق شدہ ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مطابق وہ ای ٹریبون، دی نیوز انٹرنیشنل اور ساؤتھ ایشیا میگزین کے لیے لکھتی ہیں۔ جب کہ میڈیا ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بھی ہیں۔
یوٹیوب پر ان کا ایک چینل بھی موجود ہے جس پر پاکستان کے مختلف مقامات پر ان کی بنائی گئی دستاویزی فلمیں موجود ہیں۔ جن کے ذریعے پاکستان کا مثبت تاثر اجاگر کیا گیا ہے۔
ٹوئٹر پر ان کے فالورز کی تعداد ایک لاکھ 74 ہزار سے زائد ہے جن میں بیشتر پاکستانی ہیں۔ ٹوئٹر ہینڈل پر ان کی پاکستانی لباس اور زیورات میں ملبوس ایک تصویر لگی ہوئی ہے۔
ٹوئٹر پر ان کی بے نظیر بھٹو سے متعلق ٹوئٹس کے بعد ان پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں اور وہ بیشتر الزامات کے خود جواب دے رہی ہیں۔
ٹوئٹر پر انہوں نے ایک پول بھی شروع کرایا ہے جس میں انہوں نے عوام سے پوچھا ہے کہ سب سے کم کرپٹ کون ہے؟
پول میں دیے گئے چار خواتین کے ناموں میں شیری رحمان، بشریٰ گوہر، مریم اور اپنا نام گوری جاسوس لکھا ہے۔
پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے تنقید کے بعد سنتھیا نے بعض دھمکی آمیز ٹوئٹس کے اسکرین شاٹس بھی شیئر کیے ہیں۔
ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر مبینہ طور پر پاکستان کے فوجی اہلکاروں کی کئی تصاویر بھی موجود ہیں۔ جب کہ ان کی تازہ ترین تصویر پولیس میں تعینات ہونے والے خواجہ سرا ریم شریف کے ساتھ راولپنڈی میں بنائی گئی ہے۔
ان کے حوالے سے کچھ لوگ انہیں پاکستانی فوج سے منسلک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کی فوجی اہلکاروں کے حوالے سے کی جانے والی مثبت ٹوئٹس پر انہیں پاکستانی حساس اداروں کے پراجیکٹ کا الزام لگاتے ہیں۔ لیکن سنتھیا اس بارے میں لوگوں کو براہ راست جواب دے رہی ہیں۔ جن میں ان کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی یونیفارم فورسز کے ساتھ ہیں۔
سنتھیا پہلی بار ایسے کسی تنازع کا حصہ نہیں رہیں بلکہ ماضی میں بھی صحافیوں سے ان کی سوشل میڈیا پر جنگ ہو چکی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان کی حمایت میں ہزاروں افراد نے حال میں ٹوئٹس کیے اور نئے ٹرینڈز بنا دیے۔