پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی اعلیٰ عدالت نے صوبے کے جنوبی ضلعے ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک گاؤں میں ایک جواں سال خاتون کے ساتھ زیادتی کے واقعے پر اعلیٰ پولیس حکام کو طلب کرلیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰ آفریدی نے معاملے سےمتعلق ایک غیر سرکاری ادارے کی جانب سے دائر رِٹ پٹیشن کا باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرلیا ہے۔
غیر سرکاری ادارے 'ان سرچ آف جسٹس' کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت منگل کو پشاور ہائی کورٹ میں ہوئی۔
درخواست گزار کی جانب سے سینئر وکیل قاضی محمد انور ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی لڑکی کی بے حرمتی کرنے والوں کو متعلقہ پولیس تھانے کے اہلکاروں کی آشیرباد حاصل ہے اور ملزمان کے کہنے پر ہی متاثرہ خاتون اور اس کے والدین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
قاضی انور ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں خبریں آنے کےبعد پولیس نے یہ ایف آئی آر منسوخ کردی ہے اور اصل ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔
چیف جسٹس یحیٰ آفریدی نے رِٹ پٹیشن کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے آئی جی پولیس خیبر پختونخوا، ڈی آئی جی اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو بدھ کو عدالت میں طلب کرلیا ہے۔
آئی جی پولیس صلاح الدین محسود نے چند روز قبل متاثرہ لڑکی اور اس کے والدین سے ملاقات کی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی اطلاع ملنے پر متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو معطل کیا جاچکا ہے اور اس کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق لڑکی کی بے حرمتی میں ملوث نو میں سے آٹھ ملزمان بھی گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
سینیٹ کی اسٹیڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آنے والے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کی ہے۔
ضلعے کے دور افتادہ گاؤں گرہ مٹ میں گزشتہ ماہ پیش آنے والے اس واقعے میں ایک ہی خاندان کے افراد نے غیرت کے نام پر ایک 16 سالہ لڑکی کو سرِ عام بازار میں برہنہ کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
متاثرہ لڑکی کے بھائی پر تشدد کرنے والے خاندان کی ایک لڑکی کے ساتھ تعلقات کا الزام تھا۔