خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے سابق قبائلی علاقوں میں پشاور ہائی کورٹ کی ذیلی عدالتوں نے سوموار کے دن سے کام شروع کردیا ۔ عدالتی نظام شروع ہونے سے سابق قبائلی علاقوں میں برطانوی نو آبادیاتی دور میں نافذکردہ فرنٹیر کرائم ریگولیشن کا خاتمہ ہوگا ۔
پشاور ہائی کورٹ کے ایک عہد یدارنے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ابھی تک سابق قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور اداروں کے لگ بھگ چار ہزار تصفیہ طلب مقدمات کو نئے اضلاع میں قائم عدالتوں کو نہیں بھجوایا گیا ہے۔ ان مقدمات میں 1500 کا تعلق صرف ضلع کرم ہی سے ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ سابق قبائلی علاقوں میں رائج ایف سی آر ٹریبونل میں لگ بھگ 400 مقدمات کو ضلعی یا پشاور ہائی کورٹ سے منسلک دیگر عدالتوں کو بھجوایا گیاہے۔ اس سلسلے میں کارروائی جار ی ہے ۔
سابق قبائلی علاقوں میں عدالتی نظام کے رائج ہونے کے پہلے دن سینئر سول جج ضلع خیبر کی عدالت میں گورنمٹ ڈگری کالج لنڈی کوتل میں بی ایس سی رجسٹریشن نہ ہونے کے سلسلے میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ عدالت نے وکیل سجاد حسین سنواری کا موقف سنے کے بعد کالج انتظامیہ اور پرنسپل کو حاضر ہونے اور جواب دینے کیلئے نوٹس جاری کردیا ہے ۔
سینئر وکیل اور سیاسی رہنما لطیف آفریدی ایڈوکیٹ نے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع میں عدالتی نظام شروع ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک تاریخی اقدام قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ماضی میں قبائلی علاقوں میں رائج قانون میں کوئی ا نصاف نہیں تھابلکہ تمام تر فیصلے دولت اور اثرورسوخ کے بنیاد پر کئے جاتے تھے۔ اب عدالتی نظام میں لوگوں کو انصاف ملے گا۔
سابق فاٹایوتھ جرگہ کی رکن نائلہ الطاف نے بھی عدالتی نظام شروع ہونے پر خوشی کا اظہار کیا۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ زیادہ ترلوگ اس عدالتی نظام سے ناواقف ہیں۔ لہذا ان لوگوں کو عدالتی نظام کے بارے میں آگاہی کی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
ٹرائبل یوتھ موومنٹ کے مرکزی صدر خیال زمان اورکزئی نے عدالتی نظام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس نظام سے لوگوں کو کافی اُمیدیں وابستہ ہیں۔ لہذاحکومت کو چاہیے کہ وہ اس عدالتی نظام سے حق و انصاف سے محروم لوگوں کیلئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات اُٹھائے ۔
خیال زمان اورکزئی نے کہا کہ عدالتی نظام کے رائج ہونے سے قبائلی جرگوں پر کوئی اثر نہیں پڑیگا کیونکہ جرگوں کا نظام تو ملک بھر میں پہلے سے قائم ہے۔
وفاق کے زیراہتمام سابق قبائلی ایجنسیوں کو اضلاع جبکہ فرنٹئر ر یجنز کو تحصیل کی حیثیت دی گئی ہے۔ ان علاقوں میں سات ڈسٹرک اینڈسیشن ججز، سات سنینئرسول ججز، 14 ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشن ججز اور 25سول ججز تعنیات کردئیے گئے۔ تاہم متعلقہ نئے اضلاع میں انتظامات نہ ہونے کے باعث زیادہ تر عدالتیں پشاور، چارسدہ، دیر، بنوں، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک ہی میں قائم کر دی گئی ہیں۔