کرونا وائرس کی عالمی وبا اور اس پر کنڑول کے لئے بندشوں نے ساری دنیا میں تمام اقتصادی سرگرمیوں کو بدستور مفلوج کر رکھا ہے۔ معیشت کے تمام شعبے اس ہولناک وبا سے متاثر ہوئے ہیں اور کاروبار تلپٹ ہوگئے ہیں، جن میں ائیرلائن کی صنعت بھی شامل ہے۔
ہوائی اڈے ویران ہوگئے، پروازیں بند ہوگئیں اور وہ تمام چہل پہل اور گہما گہمی، جو ان سے عبارت تھی، یکایک تھم گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فضائی کمپنیوں کو مالی اعتبار سے شدید نقصان اٹھانا پڑا اور ان میں سے بعض کے لئے تو دیوالیہ پن تک کی نوبت آن پہنچی ہے۔ دوسری جانب ائیرلائنز کمپنیوں کے عملے کے روزگار کے لالے پڑگئے۔
اس صورتحال کے ردعمل میں بعض امریکی فضائی کمپنیوں کو بھاری امدادی پیکجوں کی پیشکش کی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے کارکنوں کی تعداد میں کٹوتی پر مجبور ہیں۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کرونا کی عالمی گیر وبا کے بعد بہت سی امریکی ائیرلائن کمپنیاں پہلے کے مقابلے میں اب بہت زیادہ سکڑ جائیں گی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امیریکن اور یونائیٹیڈ ائیرلائنز کا ارادہ ہے کہ وہ اپنے انتظامی عملے اور امدادی اسٹاف کی تعداد میں تیس فیصد کی کٹوتی کردیں گی۔ اسی طرح ایک اور معروف ائیرلائن ڈیلٹا کا کہنا ہے کہ وہ موسم خزاں کے دوران قبل ازوقت ریٹائرمنٹ اور اس صورت میں اضافی رقوم کی پیشکشوں کی مدت کو بڑھادے گی۔
مواصلات کے ایک ماہر اور بروکینگز انسٹیٹیوٹ کے سینئر فیلو کلف وینسٹن کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں یہ اقدامات حیران کن نہیں ہیں اس لئے کہ ائیرلائنز کی کاروباری سرگرمیوں میں جو ڈرامائی گراوٹ آئی ہے اس کے پیش نظر انھیں اب اتنی بڑی تعداد میں افرادی قوت درکار نہیں ہے۔
سنگاپور انسٹیٹوٹ فار ٹیکنالوجی کے پروفیسر ولادی میر بلوٹ کیچ کہتے ہیں کہ تیس فیصد بہت بڑی کٹوتی ہے تاہم انھوں نے توجہ دلائی کہ اگر دیکھا جائے تو گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مسافروں کی تعداد کے مقابلے میں افرادی قوت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
اس مدت میں ائیرلائن کی صنعت نے اپنی افرادی قوت تقریبا ًپچیس فیصد بڑھادی۔ مارچ دو ہزار پندرہ میں یہ تعداد چھ لاکھ تھی جو مارچ دو ہزار بیس میں بڑھ کر ساڑھے سات لاکھ تک پہنچ گئی جبکہ مسافروں کی تعداد میں پندرہ فیصد سے تھوڑا ہی زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا
امدادی پیکج کے تحت، امیریکن ائیرلائن کو پانچ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر جبکہ یونائیٹڈ کو اندازہ ًپانچ ارب، ڈیلٹا کو پانچ اعشاریہ چار ارب اور ساؤتھ ویسٹ ائیرلائن کو تین اعشاریہ تین ارب ڈالر دئیے جائیں گے، جو گرانٹ اور نرم شرح سود پر قرضوں کی صورت میں ہوں گے۔ امیریکن ائیرلائن کا کہنا ہے کہ اس موسم گرما میں اس کے تقریبا سو طیارے پرواز نہیں کریں گے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ساری دنیا کا یہی نقشہ ہے اور فضائی کمپنیوں نے مجموعی طور پر تقریبا پندرہ ہزار طیاروں کی اڑان بند کردی ہے، جبکہ بعض ائیرلائنز ان سے کارگو لانے لیجانے کا کام لے رہی ہیں۔ ان میں ایتھوپین ائیرلائن بھی شامل ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس فضائی کمپنی کو جنوری اور اپریل کی مدت میں پچپن کروڑ ڈالر کا خسارہ برادشت کرنا پڑا ہے۔
عملے کی چھانٹی سے قطع نظر دنیا کی بہت سی ائیرلائنز دیوالیہ پن سے بچنے کے لئے بھی ہاتھ پیر مار رہی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ لاک ڈاون میں نرمی آنے کے بعد ائیرلائنز کی صنعت کی بحالی کا انحصار کئی عوامل پر ہوگا، جن میں خاص کر مسافروں کا اس بارے میں اعتماد بھی شامل ہے کہ کیا وہ اب دوبارہ بحفاظت پرواز کرسکتے ہیں؟ تاہم ابھی اس میں وقت لگے گا۔