چین، پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے ’سی پیک‘ میں شمولیت سے متعلق ایران، سعودی عرب اور افغانستان کی طرف سے دلچسپی کا اظہار کیا گیا۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ ممالک کیسے اس منصوبے کا حصہ بنیں گے، کیوں کہ اب تک کسی اور ملک کی شمولیت سے متعلق منصوبہ بندی کا لائحہ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کی ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا عملی طور پر سعودی عرب، ایران یا دیگر ممالک چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ بن سکتے ہیں تو اُنھوں نے اس کا کوئی واضح جواب نہیں دیا۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’’سی پیک کے ذریعے ہم اس خطے کے اندر تعاون کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور ابتدائی مرحلے میں سی پیک کی 80 فیصد توجہ پاکستان کی توانائی کی کمی کو پورا کرنا ہے۔۔۔اس لیے پہلے مرحلے میں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ توانائی کے اندر خود کفالت حاصل کریں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’سی پیک‘ منصوبے کے تحت جب سڑکوں اور ریلوے لائنوں کا جال بچھ جائے گا اور مجوزہ صنعتی زون بننا شروع ہوں گے تو دیگر ممالک اُس وقت اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔
’’جب انفراسٹرکچر کے منصوبے مکمل ہوں گے تو یقیناً اس کے بعد صنعتی تعاون کی طرف ہم جائیں گے جس میں ان ممالک کے تعاون کے ساتھ سرمایہ کاری ہو گی، مختلف صوبوں کے اندر صنعتی زون بنیں گے۔۔۔۔ تو یقیناً سب ممالک کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ وہ اس منصوبے کے ساتھ جُڑیں، اقتصادی تعاون کو آگے بڑھائیں انفراسٹرکچر کے اندر سرمایہ کاری کریں اور صنعتی تعاون کے لیے مل کر کام کریں۔‘‘
معاشی اُمور کے ماہر اور پاکستان کے سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ سے جب یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ سعودی عرب اس اقتصادی راہداری کے راستے پر تو واقع نہیں، پھر وہ کیسے اس منصوبے میں شامل ہو سکتا ہے۔
تو سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ ’’سعودی عرب کے چونکہ چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات خاصے بڑھ رہے ہیں تو اس (راہداری) کے ذریعے بھی ان کی چین کے ساتھ خاصی تجارت ہو سکتی ہے۔‘‘
حال ہی میں افغانستان کے اسلام آباد میں سفیر حضرت عمر زخلیوال نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اُن کا ملک بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں شمولیت میں دلچسپی رکھتا ہے۔
افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار رستم شاہ مہمند نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا۔
’’دیکھئیے فی الحال تو سی پیک کا راستہ افغانستان سے گزرنے والا نہیں ہے یہ تو گوادر سے لے کر کاشغر (تک جائے گا) اور فی الحال اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ یہ راہداری اس سے آگے جائے گی۔۔۔ بنیادی طور پر چین کا مقصد تو گوادر بندرگاہ کے ذریعے اپنی درآمدات اور برآمدت کو بڑھانا ہے۔‘‘
رستم شاہ مہمند نے کہا کہ اگر افغانستان اس منصوبے میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اُسے چین کے ساتھ بات کرنا ہو گی۔
’’پاکستان تو اس میں اپنی رضا مندی ظاہر کر سکتا ہے لیکن کیونکہ سرمایہ کاری تو چین کر رہا ہے آیا چین اس روٹ کو جزوی طور پر تبدیل کر کے یا اس میں ایڈیشن کر کے مزید سرمایہ کاری کر کے افغانستان کے لیے کوئی جگہ پیدا کر سکتا ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے۔‘‘
46 ارب ڈالر کے اس منصوبے کے تحت چین کے شہر کاشغر سے پاکستان کے جنوب مغربی ساحلی شہر گوادر تک مواصلات، بنیادی ڈھانچے اور صنعتوں کا جال بچھایا جانا ہے۔
پاکستان میں بھی اس منصوبے کے بارے میں بعض جماعتوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، خاص طور پر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا موقف رہا ہے کہ مغربی روٹ کی بجائے حکومت مشرقی روٹ کو ترجیح دے کر مبینہ طور پر پنجاب کو زیادہ فائدہ پہنچانا چاہتی ہے۔
لیکن حکومت کا کہنا کہ اس منصوبے پر طے شدہ لائحہ عمل کے تحت کام ہو رہا ہے اور اس سے پورے ملک میں بسنے والوں کو یکساں فائدہ ہو گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری میں سرمایہ کا مطلب یہ نہیں کہ سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کو ایک دوسرے سے سڑک یا ریل کے نیٹ ورک سے جوڑا جائے بلکہ اب تک کی صورت حال سے یہ لگتا ہے کہ اس منصوبے کے صعنتی زونز میں سرمایہ کاری سے بھی اس کا حصہ بنا جا سکتا ہے۔