پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے میں افغانستان کی طرف سے شمولیت کی خواہش خوش آئند ہے۔
واضح رہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں افغان سفیر حضرت عمر زخیلوال کے ایک انٹرویو کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ افغانستان بھی پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل ہونا چاہتا ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ ’’دیکھیں ہم اس بات کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ افغانستان، اُس سے قبل ایران اور سعودی عرب اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ بھی سی پیک (پاکستان چین اقتصادی راہداری) سے منسلک ہونا چاہتے ہیں۔‘‘
اُنھوں نے ایک بار پھر حکومت کا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ منصوبہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔
’’’سی پیک‘ دراصل جہاں پاکستان اور چین کے درمیان تعاون کا ایک بہت اہم منصوبہ ہے، اس کا اصل ہدف اس خطے کو تجارت اور اقتصادی تعاون کے لیے آپس میں جوڑنا بھی ہے۔‘‘
لیکن پاکستان میں بعض جماعتوں کی طرف چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔
خصوصاً خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا موقف رہا ہے کہ مغربی روٹ کی بجائے حکومت مشرقی روٹ کو ترجیح دے کر مبینہ طور پر پنجاب کو زیادہ فائدہ پہنچانا چاہتی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنے ایک تازہ بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے سے متعلق تمام معاہدے عوام کے سامنے پیش کرے۔
اس بارے میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ راہداری منصوبے سے متعلق کسی بھی چیز کو پوشیدہ نہیں رکھا گیا۔
’’دیکھیں اس منصوبے میں کوئی معاہدہ راز نہیں ہے۔۔۔ یہ پاکستان کا سب سے زیادہ ڈبیٹیڈ منصوبہ ہے۔۔۔۔ پارلیمنٹ کے اندر اس کی تمام تفصیل پیش کی جا چکی ہے، کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ درحقیقت یہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں گیم چینجر ہو گا، جو پسماندہ ترین علاقے تھے۔‘‘
46 ارب ڈالر کے اس منصوبے کے تحت چین کے شہر کاشغر سے پاکستان کے جنوب مغربی ساحلی شہر گوادر تک مواصلات، بنیادی ڈھانچے اور صنعتوں کا جال بچھایا جانا ہے۔
حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ اس منصوبے سے پورے ملک کو یکساں فائدہ ہوگا اور یہ خطے کی قسمت بدلنے کا منصوبہ ہو گا۔