واشنگٹن —
صحافیوں کے حقوق کی ایک عالمی تنظیم نے کہا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد، یہاں تک کہ ان کی ٹارگٹ کلنگ تک کے خلاف کوئی سرکاری کاروائی نہیں ہوتی۔
منگل کو تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' یا 'سی پی جے' نے پاکستان میں صحافیوں کو درپیش خطرات پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں ہلاک ہونے والے 20 سے زیادہ صحافیوں میں سے ایک کے بھی قتل کی مکمل تحقیقات نہیں کی گئیں اور کسی ایک بھی شخص کو سزا نہیں ملی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے صحافیوں کے خلاف تشدد پر ایکشن نہ لینے کی وجہ سے گزشتہ پانچ برس میں صحافت سے منسلک افراد کے لیے حالات زیادہ خراب ہوئے ہیں۔
'سی پی جے' کے ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر باب ڈیٹز کے مطابق منگل کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں تین صحافیوں کے قتل پر خاص توجہ دی گئی ہے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ کس طرح صحافیوں کو مختلف اطراف اور گروہوں سے خطرات لاحق ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان تین کیسز کے بارے میں باب ڈیٹز کا کہنا تھا:
“ولی خان بابر پر کراچی میں بظاہر ایم کیو ایم کی طرف سے حملہ کیا گیا۔ عاطف خان پر حملہ بظاہر طالبان نے کیا جنہوں نے ان کے قتل کی ذمّہ داری بھی قبول کی ہے لیکن اس بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اس قتل کے پیچھے دراصل کون تھا؟ اور سلیم شہزاد کے کیس میں اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ ان کی بے رحمی سے مار پیٹ اور موت کے پیچھے انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہاتھ تھا"۔
سی پی جے کے مطابق اگر حکومت صحافیوں کو درپیش خطرات کو کم کرنے میں ناکام رہی تو ملک میں جمہوری عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
باب ڈیٹز کا کہنا تھا کہ سلیم شہزاد کے کیس کی اعلٰی سطحی انکوائری کا بھی
منگل کو تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' یا 'سی پی جے' نے پاکستان میں صحافیوں کو درپیش خطرات پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں ہلاک ہونے والے 20 سے زیادہ صحافیوں میں سے ایک کے بھی قتل کی مکمل تحقیقات نہیں کی گئیں اور کسی ایک بھی شخص کو سزا نہیں ملی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے صحافیوں کے خلاف تشدد پر ایکشن نہ لینے کی وجہ سے گزشتہ پانچ برس میں صحافت سے منسلک افراد کے لیے حالات زیادہ خراب ہوئے ہیں۔
'سی پی جے' کے ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر باب ڈیٹز کے مطابق منگل کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں تین صحافیوں کے قتل پر خاص توجہ دی گئی ہے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ کس طرح صحافیوں کو مختلف اطراف اور گروہوں سے خطرات لاحق ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان تین کیسز کے بارے میں باب ڈیٹز کا کہنا تھا:
“ولی خان بابر پر کراچی میں بظاہر ایم کیو ایم کی طرف سے حملہ کیا گیا۔ عاطف خان پر حملہ بظاہر طالبان نے کیا جنہوں نے ان کے قتل کی ذمّہ داری بھی قبول کی ہے لیکن اس بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اس قتل کے پیچھے دراصل کون تھا؟ اور سلیم شہزاد کے کیس میں اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ ان کی بے رحمی سے مار پیٹ اور موت کے پیچھے انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہاتھ تھا"۔
سی پی جے کے مطابق اگر حکومت صحافیوں کو درپیش خطرات کو کم کرنے میں ناکام رہی تو ملک میں جمہوری عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
باب ڈیٹز کا کہنا تھا کہ سلیم شہزاد کے کیس کی اعلٰی سطحی انکوائری کا بھی
گزشتہ تحقیقات کی طرح کوئی نتیجہ نہیں نکلا کیوں کہ یہ انکوائریاں پولیس کی تفتیش نہیں ہوتیں، اور نہ ہی ان کے نیتجے میں کوئی مقدمہ دائر ہوتا ہے یا کسی کو سزا ملتی ہے۔ بلکہ ان کےبقول یہ انکوائریاں محض لوگوں کا غصّہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش نظر آتی ہیں۔
'سی پی جے' نے اپنی رپورٹ میں حکومت پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ صحافیوں کے قتل کی مکمل تفتیش کرکے مقدمات دائر کیے جائیں اور ذمّہ دار افراد کو سزا دی جائے جبکہ صحافیوں پر تشدد کی تمام سرکاری انکوائریوں کے نتائج منظر عام پر لائے جائیں۔
'سی پی جے' نے پہلی مرتبہ اپنی رپورٹ کا اردو ترجمہ بھی اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے۔