محکمہ انسداد دہشت گردی پنجاب (سی ٹی ڈی) نے حالیہ دنوں میں کالعدم تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔
چند روز قبل داعش سے وابستہ پانچ دہشت گردوں کو ہلاک جب کہ چھ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے حالیہ دنوں میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
چند روز قبل پنجاب کے ضلع بہاولپور میں کارروائی کے دوران داعش کے چار دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ دہشت گرد اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
سی ٹی ڈی ملتان کے مطابق تین دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن اِس کارروائی میں دہشت گردوں سے بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد کیا گیا ہے۔
ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق مارے جانے والے تمام دہشت گرد پہلے کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے لیے کام کرتے تھے جو بعد ازاں داعش میں شامل ہو گئے۔ انہیں جنوبی پنجاب میں فرقہ وارانہ کارروائیاں کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
ایسی ہی ایک کارروائی پنجاب کے ضلع بہاولنگر میں کی گئی۔ جہاں داعش کے دو دہشت گردوں کو ایک کارروائی کے دوران ہلاک کیا گیا۔ دونوں دہشت گروں کی شناخت عمر فاروق اور محمد اکرم کے نام سے ہوئی ہے جو اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
گزشتہ ماہ بھی پنجاب کے ضلع گوجرنوالہ اور راجن پور سے بھی حکام کے مطابق کئی دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ راجن پور سے گرفتار کیے گئے پانچ دہشت گردوں کا تعلق بلوچ شدت پسند تنظیم بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) سے بتایا جا رہا ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ دہشت گرد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تنصیبات پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں سے بڑی مقدار میں اسلحہ و بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔
پنجاب میں داعش اور دیگر تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن پر سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ اب بھی ملک میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک موجود ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی ادارے وقتاً فوقتاً کارروائیاں کرتے رہتے ہے۔ اُن کے بقول دہشت گرد گروپس کمزور ضرور ہوئے ہیں، لیکن اب بھی پاکستان میں اُن کے سلیپنگ سیل موجود ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ حالیہ دنوں میں بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ لہذٰا خفیہ ایجنسیوں کو کوئی معلومات ملتی ہیں تو وہ کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر حسن عسکری کے بقول پاکستان کی داعش کے بارے میں پالیسی واضح ہے کہ اسے یہاں پنپنے نہیں دیا جائے گا۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی اُن شدت پسند تنظیموں کے لیے ایک پیغام ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کا ارادہ رکھتی ہیں۔
لاہور کے ایک سینئر کرائم رپورٹر جہانگیر اکرام خان سمجھتے ہیں کہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) گزشتہ تین سال سے دہشت گردوں کے خلاف سرگرم ہے۔
لیکن اس دوران بے گناہ افراد کی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ان کارروائیوں میں کچھ تعطل آیا تھا۔ لیکن اب یہ کارروائیاں پھر تیز ہو چکی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر خان نے کہا کہ سی ٹی ڈی کی کارروائیوں سے کسی کو پیغام دینا نہیں ہے یہ ایک لڑائی ہے جو طویل عرصے سے چل رہی ہے۔
جہانگیر خان کی رائے میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ماضی میں دہشت گردوں کی جتنی بھی تنظیمیں تھیں یا نئی تنظیمیں پنپ رہی تھیں، انہیں ختم کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں پر سوالات اٹھانا بہت آسان ہوتا ہے۔ لیکن دہشت گروں کے خلاف آپریشن میں تمام فیصلے موقع پر کیے جاتے ہیں کہ اُنہیں پکڑنا ہے یا مارنا ہے۔
ڈاکٹر عسکری کے بقول دہشت گردوں کی نیت یہی ہوتی ہے کہ اس نے اپنے ٹارگٹ کو ختم کرنا ہے۔ لہذٰا جب سیکیورٹی فورسز ان کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو ایک طرح سے اُنہیں بھی قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
اُن کے بقول اس طرح کی کارروائیوں میں یہ تعین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ فلاں بندے کو مارنا ہے یا فلاں کو نہیں مارنا۔ جب دہشت گرد بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو لامحالہ سیکیورٹی فورسز کو بھی سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔
جہانگیر خان سمجھتے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں ایک طے شدہ قواعد و ضوابط اور معلومات کے تبادلے پر کی جاتی ہیں۔ سی ٹی ڈی اور دیگر سیکیورٹی فورسز آپریشن سے پہلے اپنی ٹیم کو بتاتے ہیں کہ کہاں کارروائی کرنی ہے۔
جہانگیر کے بقول کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے سلیپنگ سیلز کے خلاف کارروائی ایک طے شدہ خفیہ منصوبے کے تحت کی جاتی ہے۔
جہانگیر خان کہتے ہیں کہ سانحہ ساہیوال پر سی ٹی ڈی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
گزشتہ سال 19 جنوری کی سہ پہر محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے ضلع ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک گاڑی پر فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں کار سوار خلیل، اُن کی اہلیہ، بیٹی اور محلے دار ذیشان گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے تھے۔ کارروائی میں تین بچے بھی زخمی ہوئے تھے۔
جہانگیر کے بقول گو کہ سی ٹی ڈی کو اس اقدام پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن ریاستی اداروں کے پاس جواز موجود تھا کہ ذیشان نامی شخص کا تعلق داعش سے تھا۔ لہذٰا یہ معاملہ بھی دب گیا تھا۔
جہانگیر خان کہتے ہیں کہ سانحہ ساہیوال کے بعد سے تمام آپریشن مستند معلومات پر ہی کیے گئے ہیں۔ سی ٹی ڈی اپنی کارروائیوں میں دہشت گردوں کو مارتی بھی ہے اور اُنہیں زندہ بھی پکٹرتی ہے۔ اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ زندہ پکڑے جانے والے کس کے لیے کام کرتے ہیں اور مستقبل کے منصوبے کیا ہیں۔