کراچی میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ایک مرتبہ پھر تیزی آگئی ہے اور پچھلے سات دنوں میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ واقعات کا آغاز جمعہ کو ہوا جب ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں فائرنگ کے تین مختلف واقعات میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے۔
پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں سے تین افراد کا تعلق اہلسنت والجماعت نامی کی ایک دینی تنظیم سے تھا۔اس تنظیم نے خود بھی اس بات کی تصدیق کی کہ تینوں افراد ان کے مقامی رہنما تھے۔
ان واقعات کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تفتیش کا فوری آغاز کرتے ہوئے شہر میں بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کر دیا جس کے دوران مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں سمیت 60 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ ایڈیشنل ڈی آئی جی مشتاق مہر کا کہنا ہے کہ دونوں فرقوں کے افراد ایک دوسرے کے خلاف ٹارگٹ کلنگ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اسی لئے، ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے۔
ان رہنماؤں میں سرفہرست پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی اور آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ اور مجلس وحدت المسلمین کے سابق رہنما علامہ مرزا یوسف حسین شامل ہیں، جبکہ سنی جماعتوں کے رہنماؤں کی بھی ایک بڑی تعداد زیر حراست لئے جانے والے افراد میں شامل ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ فیصل رضا عابدی پٹیل پاڑہ میں ہونے والی دو افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں جبکہ علامہ مرزا یوسف حسین سے متعلق ایس ایچ او ناظم آباد فیض الحسن کا کہنا ہے کہ وہ اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں زیر حراست ہیں، جبکہ وہ ایک درجن سے زائد دیگر نوعیت کے مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب ہیں۔
مجلس وحدت المسلمین کے مرکزی نائب سیکریٹری سید ناصر شیرازی، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا اور فیصل رضا عابدی کے بھائی مصطفیٰ عابدی نے کراچی پریس کلب میں نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ زیر حراست رہنماؤں کو جلد رہا نہ کیا گیا تو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔
فیصل رضا عابدی کو جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں انہیں 19 نومبر تک عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ تفتیشی افسر کے مطابق فیصل رضا عابدی کے گھر سے مختلف اقسام کا اسلحہ ملا تھا جس میں ایک ایس ایم جی غیر لائسنس یافتہ تھی۔
علامہ یوسف مرزا کو بھی پیر کے روز سندھ ہائیکورٹ میں انسداد دہشت گردی کی منتظم عدالت میں پیش کیا گیا۔ تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ ان پر کراچی وسطی کے علاقے شریف آباد میں اشتعال انگیز تقریر کا الزام ہے۔
ان گرفتاریوں کے بعد سے ہی شہر کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اتوار کو تمام دن گولیمار اور ناظم آباد کے قریبی علاقے رضویہ سوسائٹی میں لوگوں کی بڑی تعداد نے دھرنا دیا اور احتجاجی نعرے لگائے۔ ان میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل تھیں۔ تاہم، احتجاج میں پیر کو اس وقت تیزی آگئی جب مجلس وحدت المسلمین کے کارکنوں نے فیصل رضا عابدی اور علامہ مرزا یوسف کی رہائی کیلئے ملیر15میں صبح سے ہی سخت ترین احتجاج شروع کیا۔
احتجاجی مظاہرے کے باعث نیشنل ہائی پر بدترین ٹریفک جام ہوگیا اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ اسکول، کالجز اور دفاتر جانے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ملیر کے مختلف علاقوں میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا۔ حتیٰ کہ اندرون ملک جانے والے ٹرینیں بھی گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئیں۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور ہوائی فائرنگ کی جس کے بعد مظاہرین منتشر ہو کر اطراف کی گلیوں میں چلے گئے۔ تاہم، وہ پولیس پر پتھراؤ کرتے رہے۔ پولیس اور مظاہرین میں آنکھ مچولی کا سلسلہ کافی دیر جاری رہا۔ تاہم، پولیس کے اس ایکشن کے نتیجے میں تقریباً آٹھ گھنٹے بعد نیشنل ہائی پر ٹریفک بحال ہوگیا۔