واشنگٹن —
بنگلہ دیش میں حکام نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے منہدم ہونے والی عمارت کے ملبے تلے دبے افراد کے زندہ بچنے کی امیدیں ختم ہوگئی ہیں جس کے بعد ملبہ ہٹانے کے لیے بھاری مشینری کا استعمال شروع کردیا گیا ہے۔
دارالحکومت ڈھاکہ کے نواح میں بدھ کو منہدم ہونے والی آٹھ منزلہ عمارت کے ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے امدادی کارکن گزشتہ پانچ دن سے ہاتھوں اور ہلکے اوزاروں کے ذریعے ملبہ ہٹا رہے تھے۔
حکام کے مطابق ملبے تلے دبے افراد کے زندہ بچنے کی امیدیں ختم ہونے کے بعد اتوار اور پیر کی درمیانی شب سے ملبہ ہٹانے کے لیے کرینوں اور بھاری مشینری کا استعمال شروع کردیا گیا ہے۔
اس سے قبل امدادی کاروائیوں کے دوران میں ملبے میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس کے بعد ملبے میں پھنسے ہوئے افراد کے زندہ بچنے کی رہی سہی امیدیں بھی معدوم ہوگئی تھیں۔
حکام کے مطابق عمارت کے انہدام سے اب تک 380 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے جب کہ اب بھی سیکڑوں افرادلاپتہ ہیں۔
پیر کو بنگلہ دیش کی وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد نے بھی منہدم ہونے والی عمارت کے مقام کا دورہ کیا اور وہاں جاری امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کی۔ وزیرِ اعظم نے بعد ازاں اسپتالوں میں زیرِ علاج زخمیوں کی بھی عیادت کی۔
اس سے قبل اتوار کو پولیس نے عمارت کے مالک کو بھارت کی سرحد کے نزدیک ایک علاقے سے حراست میں لے لیا تھا جسے پیر کو دارالحکومت ڈھاکہ کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق سہیل رانا حکمران جماعت 'عوامی لیگ' کی نوجوانوں کی تنظیم کا ایک مقامی رہنما ہے۔
عدالت نے تفتیش کے لیے ملزم کو 15 روز کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔
بنگلہ دیش کی پولیس بدھ کو پیش آنے والے حادثے کے بعد سے عمارت کے مالک سہیل رانا کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی تھی۔
پولیس کے مطابق متعلقہ محکمے کے حکام نے انہدام سے ایک روز قبل عمارت کا دورہ کیا تھا اور اس کی خستہ حالی کے پیشِ نظر سہیل رانا اور عمارت میں قائم فیکٹریوں کے منیجرز کو انخلا کی ہدایت کی تھی جسے انہوں نے نظر انداز کردیا تھا۔
سہیل رانا کی گرفتاری سے ایک روز پولیس نے عمارت میں قائم فیکٹریوں کے چار مالکان اور دو انجینئروں کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔
پولیس کے مطابق حادثے کی تفتیش کے سلسلے میں اب تک آٹھ افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
حکام کے مطابق عمارت میں کپڑے کی فیکٹریاں قائم تھیں اور اس کے منہدم ہونے کے وقت ان میں تین ہزار سے زائد افراد موجود تھے جن میں سیکڑوں خواتین بھی شامل تھیں۔
عمارت کے انہدام کے بعد لگ بھگ ڈھائی ہزار افراد کو ملبے سے زندہ نکال لیا گیا تھا۔
دارالحکومت ڈھاکہ کے نواح میں بدھ کو منہدم ہونے والی آٹھ منزلہ عمارت کے ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے امدادی کارکن گزشتہ پانچ دن سے ہاتھوں اور ہلکے اوزاروں کے ذریعے ملبہ ہٹا رہے تھے۔
حکام کے مطابق ملبے تلے دبے افراد کے زندہ بچنے کی امیدیں ختم ہونے کے بعد اتوار اور پیر کی درمیانی شب سے ملبہ ہٹانے کے لیے کرینوں اور بھاری مشینری کا استعمال شروع کردیا گیا ہے۔
اس سے قبل امدادی کاروائیوں کے دوران میں ملبے میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس کے بعد ملبے میں پھنسے ہوئے افراد کے زندہ بچنے کی رہی سہی امیدیں بھی معدوم ہوگئی تھیں۔
حکام کے مطابق عمارت کے انہدام سے اب تک 380 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے جب کہ اب بھی سیکڑوں افرادلاپتہ ہیں۔
پیر کو بنگلہ دیش کی وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد نے بھی منہدم ہونے والی عمارت کے مقام کا دورہ کیا اور وہاں جاری امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کی۔ وزیرِ اعظم نے بعد ازاں اسپتالوں میں زیرِ علاج زخمیوں کی بھی عیادت کی۔
اس سے قبل اتوار کو پولیس نے عمارت کے مالک کو بھارت کی سرحد کے نزدیک ایک علاقے سے حراست میں لے لیا تھا جسے پیر کو دارالحکومت ڈھاکہ کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق سہیل رانا حکمران جماعت 'عوامی لیگ' کی نوجوانوں کی تنظیم کا ایک مقامی رہنما ہے۔
عدالت نے تفتیش کے لیے ملزم کو 15 روز کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔
بنگلہ دیش کی پولیس بدھ کو پیش آنے والے حادثے کے بعد سے عمارت کے مالک سہیل رانا کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی تھی۔
پولیس کے مطابق متعلقہ محکمے کے حکام نے انہدام سے ایک روز قبل عمارت کا دورہ کیا تھا اور اس کی خستہ حالی کے پیشِ نظر سہیل رانا اور عمارت میں قائم فیکٹریوں کے منیجرز کو انخلا کی ہدایت کی تھی جسے انہوں نے نظر انداز کردیا تھا۔
سہیل رانا کی گرفتاری سے ایک روز پولیس نے عمارت میں قائم فیکٹریوں کے چار مالکان اور دو انجینئروں کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔
پولیس کے مطابق حادثے کی تفتیش کے سلسلے میں اب تک آٹھ افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
حکام کے مطابق عمارت میں کپڑے کی فیکٹریاں قائم تھیں اور اس کے منہدم ہونے کے وقت ان میں تین ہزار سے زائد افراد موجود تھے جن میں سیکڑوں خواتین بھی شامل تھیں۔
عمارت کے انہدام کے بعد لگ بھگ ڈھائی ہزار افراد کو ملبے سے زندہ نکال لیا گیا تھا۔