پاکستان اور بھارت کے درمیان بدھ کو ہونے والے سیمی فائنل میچ کے منتظر پاکستانی شائقین کرکٹ سب کام چھوڑ کر اپنی اپنی ٹیموں پر نظر یں جمائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کونسا کھلاڑی کیا بیان دے رہا ہے اور ملک میں دیگر شخصیات میچ سے متعلق کیا باتیں کررہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر ملکی وبین الاقوامی خبریں بھی صرف ’برسبیل تذکرہ‘ ہی پیش کی جارہی ہیں۔
دونوں ٹیموں کے کپتان تو بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ پریشر کے باوجود ٹیمیں بہتر کھیل پیش کریں گی اور کھیل کو صرف کھیل سمجھا جائے لیکن برصغیر کے ان دو روایتی حریف ملکوں کے عوام کے اعصاب اس میچ کے انتظارمیں شَل ہوتے جارہے ہیں۔
کوئی بھی ٹی وی چینل آن کریں یا تو پاکستانی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے نغمے دیکھائے جارہے ہیں یا پھر ماہرین قومی ٹیم کو مشورے دیتے نظر آرہے ہیں کہ بھارت کے خلاف میچ میں کونسی حکمت عملی موثر ثابت ہوگی۔ بھارت میں بھی میڈیا کا کچھ یہی حال ہے ۔ یہ تمام صورت حال بلاشبہ جہاں میچ سے پہلے شائقین کی بے چینی میں اضافہ کررہی تو وہاں پاکستان اور بھارت کے کھلاڑیوں پر دباؤ بھی بڑھتا جارہا ہے۔
منگل کو دونوں ٹیموں کے کپتانوں نے موہالی میں الگ الگ پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتے ہوئے بظاہر اس تاثر کو رد کرنے کی کوشش کی کہ ذرائع ابلاغ میں سیمی فائنل کا چرچا اور اس کے بارے میں سیاسی بیان بازی سے کھلاڑی بدھ کو میچ انتہائی دباؤ میں کھیلیں گے۔
شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ ٹیم پر کوئی دباؤ نہیں ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ دباؤ میں میچ کھیلنے کا زیادہ مزا آتا ہے۔”پریشر میں اگر آپ انجوائے کرتے ہیں توآپ اچھا پرفارم کرتے ہیں اور کوچز لڑکوں کو بتا رہے ہیں کہ پریشر کو کس طرح ہینڈل کیا جاتا ہے“۔
پاکستانی ٹیم کے منیجر انتخاب عالم کا کہنا تھا کہ لڑکے بہت پراعتماد ہیں اور انھوں نے سب سے کہا ہے کہ وہ صرف اپنے کھیل پر توجہ دیں۔”ٹی وی نہ دیکھیں، اخبار نہ پڑھیں اور کون کس سے کیا کہہ رہا ہے اس پر کان نہ دھریں۔“
بھارتی کپتان مہندرا سنگھ دھونی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی محاذ پر کیا ہورہا ہے ہم اس پر توجہ نہیں دے رہے۔”ہم کھلاڑی ہیں اور تمام لڑکے بدھ کو ہونے والے میچ میں اچھا کھیل پیش کرنے کی تیاری میں مصروف ہیں۔“
پاکستان میں سیمی فائنل مقابلہ دیکھنے کے لیے بڑے شہروں میں انتظامیہ کو بڑی بڑی ٹی وی اسکرینز لگانے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس پر عمل درآمد بھی شروع کردیا گیا ہے۔