پاکستان کو وجود میں آنے کے پانچ برس بعد، ٹیسٹ کا درجہ 1952ء میں ملا۔ ملکی کرکٹ کی تاریخ میں پاکستان نے زبردست تیز بالر پیدا کئے جنہوں نے اپنے زمانے میں دنیا کے مانے ہوئے بلے بازوں کو پریشانی میں مبتلا کئے رکھا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں تیز بالروں کا ایک کلچر موجود رہا ہے، جنہوں نے مختلف وقتوں میں پاکستانی ٹیم کی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان میں وسیم اکرم، فضل محمود، وقار یونس، عمران خان اور شعیب اختر خاص طور پر شامل ہیں۔
تاہم، پاکستان کے کچھ عظیم سپنرز نے بھی کرکٹ کی تاریخ میں اپنے لئے ایک خاص مقام پیدا کیا اور عبدالقادر، مشتاق احمد، ثقلین مشتاق اور سعید اجمل کی کارکردگی نے شائقین کو مسحور کیا ہے۔
بالرز کے علاوہ پاکستان میں کچھ بلے بازوں نے بھی اپنی کارکردگی سے دنیا بھر میں ایک نام پیدا کیا ہے۔ حنیف محمد، ظہیر عباس، محمد یوسف، جاوید میانداد، انظمام الحق، سعید انور اور محمد یونس جیسے بیٹسمینوں کے نام زبان زد خاص و عام ہیں۔ بالروں اور بیٹسمینوں کے علاوہ عبدالرزاق، شاہد آفریدی اور محمد حفیظ جیسے کچھ آل راؤنڈرز نے بھی خاصی شہرت حاصل کی ہے۔
آئیے پاکستانی تاریخ کے نمایاں ترین کرکٹرز کا جائزہ لیتے ہوئے 10 بہترین کرکٹرز کا انتخاب کرتے ہیں۔
1۔ حنیف محمد بلاشبہ پاکستان کے سب سے پہلے عظیم بیٹسمین تھے جنہوں نے پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کے ابتدائی سالوں میں بہت سے غیر معمولی ریکارڈ قائم کئے اور پاکستانی ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ ’لٹل ماسٹر‘ کی عرفیت سے جانے جانے والے حنیف محمد نے اپنے 17 سالہ کیرئر میں 55 ٹیسٹ کھیل کر 44 رنز کی اوسط سے 3915 رنز بنائے۔ اُن کے کیریئر کی سب سے نمایاں کارکردگی 1957-58 میں برج ٹاؤن باربیدوس میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اُن کی وہ ٹرپل سنچری تھی جس نے پاکستان کو ایک یقینی شکست سے بچا لیا تھا۔ اس میچ میں پہلی اننگ کے بعد پاکستان کو 473 رنز کے خسارے کا سامنا تھا۔ دوسری اننگ میں حنیف محمد نے 16 گھنٹے سے زائد وقت تک کریز پر رہتے ہوئے 337 رنز بنائے اور یوں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میچ کو ڈرا کرنے میں کامیاب رہے۔
2۔ فضل محمود 1950ء کی دہائی کے دوران پاکستانی کرکٹ کے سوپر اسٹار تھے۔ اوول ہیرو کی حیثیت سے شہرت رکھنے والے فضل محمود نے بھارت اور انگلستان کے خلاف پاکستانی ٹیم کی پہلی دونوں فتوحات میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے 24 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اس کے علاوہ 1962 میں ریٹائر ہونے سے قبل اُنہوں نے پاکستانی ٹیم کی جیت میں متعدد بار اہم کردار ادا کیا۔ اُن کے ساتھی کرکٹر حنیف محمد کا کہنا ہے،’’پاکستانی ٹیم کے ابتدائی سالوں کی ہماری تما م فتوحات میں فضل محمود کردار بہت اہم رہا ہے۔‘‘ فضل محمود نے اپنے کیریئر میں 34 ٹیسٹ کھیل کر 24.7 کی اوسط سے 139 وکٹیں حاصل کیں۔
3۔ ظہیر عباس نے اپنے فرسٹ کلاس کیریئر میں 100 سینچریاں بنائیں۔ اُنہیں ایشین بریڈمین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ وہ طویل عرصے تک پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ اُن کی سب سے نمایاں کاکردگی ایج بیسٹن میں انگلستان کے خلاف 274 رنز کی اننگ ہے۔ یہ اُن کے کیریئر کا دوسرا ٹیسٹ میچ تھا۔ اُنہوں نے اپنے کیریئر میں 78 ٹیسٹ کھیل کر 5062 رنز بنائے۔ ان میں 12 سنچریاں اور 20 نصف سنچریاں شامل ہیں۔
4۔ عمران خان کے بارے میں بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے عظیم ترین کرکٹر تھے۔ وہ یقیناً کرکٹ کی تاریخ کے بہترین آل راؤنڈرز میں سے ایک ہیں۔ اُن کی قیادت میں پاکستان نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔
عمران خان نے اپنے کیریئر کے دوران 88 ٹیسٹ کھیل کر 22.81 کی اوسط سے 362 وکٹیں حاصل کیں اور تقریباً 40 رنز کی اوسط سے 3807 رنز بنائے۔ خود اپنی کارکردگی کے علاوہ اُنہیں اس بات کا بھی کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں نکھار پیدا کیا اور بعد میں یہ دونوں بھی پاکستان کے عظیم کھلاڑیوں کی صف میں شامل ہوئے۔
5۔ جاوید میانداد 1980 کی دہائی کے دوران پاکستان کے سب سے مستند بیٹسمین تھے۔ اُنہوں نے اپنے کیریئر میں 124 ٹیسٹ کھیلے جن میں اُنہوں نے 52.57 کی اوسط سے 8832 رنز بنائے۔ اُنہوں نے 23 سنچریاں، 43 نصف سنچریاں اور 6 ڈبل سنچریاں بنائیں۔ وہ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ ڈبل سنچریاں بنانے والے بیٹسمین ہیں۔ وہ کرکٹ کی تاریخ کے واحد بیٹسمین ہیں جنہوں نے اپنے کیریئر کے پہلے اور 100 ویں ٹیسٹ میں سنچری بنائی۔ اُن کا سب سے نمایاں اسکور 280 رنز ناٹ آؤٹ تھا جو اُنہوں نے بھارت کے خلاف بنایا۔
6۔ عبدالقادر نے 67 ٹیسٹ میچوں میں 236 وکٹیں حاصل کیں اور 1029 رنز اسکور کئے۔ اُنہوں نے 104 ایک روزہ میچ کھیلتے ہوئے 132 بیٹسمینوں کو پیویلین کی راہ دکھائی۔ عبدالقادر کو جادوگر بالر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اُن کا بالنگ کرانے کا انداز منفرد تھا ۔ وہ لیگ سپن، گُگلی، فلپر اور ٹاپ سپن کے ماہر خیال کئے جاتے تھے۔ انگلستان کے سابق کپتان گراہم گوچ کا کہنا تھا کہ قادر شین وارن سے بھی زیادہ عظیم بالر تھے۔
7۔ انظمام الحق جاوید میانداد کے ساتھ 1980 اور پھر 1990 کی دہائی میں پاکستانی بیٹنگ کے بنادی ستون تھے۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے اس کرکٹر نے اپنے کیریئر میں 120 ٹیسٹ کھیلے جن میں اُنہوں نے 49.6 کی اوسط سے 8830 رنز بنائے۔ اس میں 25 سنچریاں اور 46 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے 378 ایک روزہ میچ کھیلتے ہوئے 39.52 کی اوسط سے 11739 رنز بنائے۔ ون ڈے میں اُن کی سنچریوں کی تعداد 10 اور نصف سنچریوں کی تعداد 83 رہی۔ انظمام کو عالمی کرکٹ کے ایک لیجنڈ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔
8۔ وسیم اکرم سونگ کے سلطان کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ کرکٹ کے بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ وہ کرکٹ کی تاریخ کے چند بہترین تیز بالروں میں سے ایک ہیں۔ اُنہیں ریورس سونگ کا موجد خیال کیا جاتا ہے۔ بائیں بازو سے تیز گیند کرنے والے اس آل راؤنڈر نے اپنے کیریئر میں کل 104 ٹیسٹ کھیل کر 23.62 کی اوسط سے 414 وکٹیں حاصل کیں۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے 3 سنچریوں اور 7 نصف سنچریوں کی مدد سے 2898 رنز بنائے۔ وسیم اکرم نے 356 ایک روزہ بین الاقوامی میچ بھی کھیلے جن میں اُنہوں نے 23.52 کی اوسط سے 502 وکٹیں حاصل کیں۔
9۔ وقار یونس کو بھی کرکٹ کی تاریخ کے عظیم تیز بالروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ وسیم اکرم کے ساتھ ساتھ ریورس سونگ کے ماہر تھے اور ان کی جوڑی کو اُن کے وقت میں دنیا کی خطرناک ترین جوڑی تصور کیا جاتا تھا۔ وقار یونس نے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں کل 87 میچ کھیلے جن میں اُنہوں نے 23.56 کی اوسط سے 373 بیٹسمینوں کو شکار کیا۔ اُنہوں نے 262 ون ڈے بھی کھیلے جن میں اُنہوں نے 414 وکٹیں حاصل کیں۔
10۔ یونس خان بلا شبہ پاکستان کے بہترین بیٹسمینوں میں سے ایک ہیں۔ وہ پاکستان کے واحد بیٹسمین ہیں جنہوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کے 10000 رنز مکمل کئے۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان کے سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے کھلاڑی بھی ہیں۔ اُنہوں نے اپنے کیریئر میں 118 ٹیسٹ کھیل کر 52.05 کی اوسط سے 10999 رنز بنائے جن میں 34 سنچریاں اور 33 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ یونس خان نے 265 ون ڈے کھیلتے ہوئے 7 سنچریوں اور 48 نصف سنچریوں کی مدد سے 7 249 رنز اسکور کئے۔