امریکہ کی ٹیکساس یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایک ایسا جین دریافت کیا ہے جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اس کا تعلق قانون شکنی کے رجحان سے ہے۔ جن افراد میں یہ جین موجود ہوتا ہے وہ جرائم کی طرف میلان رکھتے ہیں اور موقع ملنے پر وہ اس تاریک دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں۔
اس سائنسی تحقیق سے منسلک ڈاکٹر جے سی بیرنس نے جرائم سے متعلق ایک جریدے ’کرائمینالوجی‘ میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کوئی واحد جین انسان کو جرائم کی جانب راغب نہیں کرتا بلکہ انسانی سوچ اوررویے سے متعلق کئی جین مل کر اسے ایک امن پسند شہری سے مجرم بنا دیتے ہیں۔
ڈاکٹر بیرنس کا کہناہے کہ جرائم کی جانب راغب کرنے والے جین سینکڑوں طرح کے ہیں ۔ یہ جین انسانی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ ایسے افراد عمر بھر کوئی جرم نہ کریں، لیکن ان کاذہن زیادہ تر منفی پہلوؤں کے بارے میں ہی سوچتا ہے اور جہاں کہیں انہیں موقع ملتا ہے وہ جرم کرنے سے نہیں چوکتے، چاہے اس کا امکان ایک فی صد ہی کیوں نہ ہو۔ بعض اوقات وہ نہ چاہتے ہوئے بھی جرم صرف اپنی جینیاتی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر کربیٹھتے ہیں۔
ٹیکساس یونیورسٹی کے ماہرین نے اپنی تحقیق کے لیے تین گروپ بنائے۔ پہلے گروپ میں ایسے افراد کوشامل کیا گیا جو پیشہ ور مجرم تھے اور جن کی پوری زندگی جرائم میں گذری تھی۔ دوسرے گروپ میں وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی نوجوانی میں جرائم کیے تھے۔ جب کہ تیسرا گروپ ایسے افراد پر مشتمل تھا جو پرامن شہری تھے اور جو ہمیشہ قانون کا احترام کرتے تھے۔
تحقیق میں شامل چار ہزار افراد کی زندگیوں سے متعلق معلومات کے تجزیے سے ماہرین کو پتا چلا کہ باقاعدگی سے جرائم کرنے والوں کا طرز عمل ان لوگوں سے قطعی مختلف تھا جنہوں نے اپنی نوعمری کے زمانے میں اکا دکا جرم کیے تھے۔ ماہرین کا کہناہے کہ ان کے اکادکا جرم اتفاقیہ جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، جو فوری اشتعال یا اپنے دوستوں کے دباؤ کے تحت کیے جاتے ہیں۔ جب کہ عادی مجرم اپنا ہر جرم خوب سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کے تحت کرتاہے۔
ماہرین نے ایسے افراد کی زندگیوں پر بھی تحقیق کی جو اگرچہ جڑواں پیدا ہوئے تھے، لیکن ان کی پرورش الگ الگ جگہوں پر یکسر مختلف ماحول میں کی گئی تھی۔ ماہرین کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مختلف ماحول میں پروان چڑھنے اور ایک دوسرے سے قطعی طور پر لاعلم ہونے کے باوجود ان کی عادات اور جرائم کی جانب میلان میں70 فی صد سے زیادہ مماثلت تھی۔ ماہرین کا کہناہے کہ اس مماثلت کی وجہ وہ جین تھے جوجڑواں ہونے کے باعث ان میں ایک جیسے تھے۔
ڈاکٹر بیرنس کا کہناہے کہ ان کا مطالعاتی جائزہ یہ ثابت کرتا ہے کہ عادی مجرم بننے میں حالات سے زیادہ عمل دخل ان کے اندر موجود مخصوص جین سے ہوتا ہے، جو انہیں جرم کرنے پر اکساتا رہتا ہے۔
امریکہ میں جڑواں بچوں کے نفسیاتی پہلوؤں پر بہت سی سائنسی تحقیقات ہوچکی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جڑواں دوطرح کے ہوتے ہیں ، ایک وہ جو ہوبہو ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ انہیں سائنسی اصصلاح میں ایم زی کہا جاتا ہے جب کہ دوسری قسم کے جڑواں بچے اگرچہ پیدا تو ایک ہی ساتھ ہوتے ہیں لیکن وہ جینیاتی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور انہیں ڈی زی کہاجاتا ہے۔
سن 2000ء میں تہرانی اور مڈنک نے ایم زی جڑواں بچوں کے 32جوڑوں پر تحقیق کی۔ یہ ایسے بچے تھے جنہیں اپنی پیدائش کے فوراً بعد ایسے افراد نے گود لے لیا تھا جو ان کے رشتے دار نہیں تھے۔ان کی پرورش الگ الگ مقامات پر مختلف حالات اور ماحول میں ہوئی۔ ماہرین نے ان کے بچپن اور بلوغت کے دور کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا۔ جس سے پتا چلا کہ مختلف ماحول میں پروان چڑھنے کے باوجود ان کی سوچ اور طرز عمل ایک جیساتھا۔ اگر ایک بچے میں جرم کی جانب رجحان موجودتھا تو اس کا جڑواں ساتھی بھی جرم کی جانب اتنا ہی راغب تھا۔
اسی طرح 2001ء میں ایک اور ماہرنفسیات جوزف نے پولیس کے دس سالہ ریکارڈ کی مدد سے ایم زی جڑواں بچوں کے 85 جوڑوں اور ڈی زی جڑواں بچوں کے 147 جوڑوں کا مطالعہ کیا۔ ان کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حقیقی جڑواں جوڑوں یعنی ایم زی میں ایک ہی طرح کے جرائم میں ملوث ہونے کی شرح 54 فی صد تک تھی۔
اسی طرح سویڈن اور ڈنمارک میں جڑواں بچوں پر بڑے پیمانے پر کی جانے والی ایک سائنسی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہےحقیقی جڑواں افراد کی نفسیات اور کردار ایک جیسا ہوتا ہے اور وہ مخصوص حالات میں ایک جیسے طرزعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر حقیقی جڑواں افراد میں سے ایک مجرم ہے تو دوسرا بھی اتنا ہی قانون شکنی کی جانب راغب ہوگا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جب ایسے افراد جن کے جین میں قانون شکنی کی جانب رغبت موجود ہو ، جب جیل پہنچتے ہیں تو وہاں جرائم پیشہ افراد کے ساتھ میل ملاپ سے ان کے اس فطری میلان کو مزید جلا ملتی ہے اور رہائی کے بعد وہ بڑے مجرم بن کر باہر نکلتے ہیں۔جیل اور سزائیں ایسے افراد کی اصلاح نہیں کرسکتیں۔ اس کے لیے دیگر نفسیاتی طریقوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک صبر آزما اور طویل عمل ہے اور اس کے بعد بھی ممکن ہے آپ اپنی توقع کے نتائج حاصل نہ کرسکیں۔