کھیتوں میں نمودار ہونے والے پراسرار دائرے اور اشکال عموماً 30 سے 40 فٹ یا بعض اوقات اس سے بڑی ہوتی ہیں اوران میں اتنی نفاست اور مہارت ہوتی ہے کہ یوں لگتا ہے جسے کسی نے انہیں پرکار اور جیومیٹری کے دیگر آلات کی مدد سے بنایا ہے۔
بعض دائروں کے گرد چھلے کی شکل کی پگڈنڈیاں بھی ہوتی ہے۔ جوکبھی کبھی ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے خوبصورت پھول اور جیومیٹری کی دلکش اور پرکشش اشکال بناتی ہیں۔
ان دائرہ نما اشکال کو جب کسی بلند مقام سے دیکھا جائے، یا ان کا فضائی جائزہ لیاجائے تو وہ بہت دلکش لگتی ہیں اور دل بے اختیار ان کے تخلیق کار کو داد دینے کو چاہتا ہے۔ مگر دوسری جانب ، جس علاقے میں یہ دائرے اور اشکال ظاہر ہوتی ہیں، وہاں خوف وہراس پھیل جاتا ہے۔ کیونکہ اکثر مقامی باشندے انہیں آسیب یا کسی دوسرے سیارے سے آنے والی مخلوق کا کام سمجھتے ہیں۔
پراسرار دائروں کی خبریں گذشتہ 40 سال سے منظر عام پر آرہی ہیں مگر حالیہ برسوں میں ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوچکا ہے۔ اور اب وہ برطانیہ کے ونچسٹر کے دیہی علاقوں تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ افریقہ کے صحراؤں سے آسٹریلیا کے دور افتادہ علاقوں تک میں نمودار ہورہے ہیں۔
پراسرار دائرے کون بنارہاہے؟
1972ء میں دوبرطانوی باشندوں آرتھر شٹل وڈ اور برائس بانڈ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے سٹال ہل کے علاقے میں رات کی تاریکی میں ایک اڑن طشتری دیکھی۔ جس سے نکلنے والی تیز روشنی نے ایک قریبی کھیت میں کھڑی فصل پر دائرہ بنایا۔ جس سے دائرے کے اندر کھڑے پودے گر گئے اور اڑن طشتری وہاں سے چلی گئی۔
کچھ عرصے کے بعد برٹش کولمبیا میں آٹھ افراد نے یہ گواہی دی کہ انہوں نے اڑن طشتریوں کو فصلوں کے دائرے بناتے ہوئے دیکھا ہے۔
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پراسرار دائرے آسیب یا جنات بنارہے ہیں۔ کیونکہ یہ دائرے اکثر ان علاقوں کی فصلوں میں بنتے ہیں جہاں آس پاس قبل از مسیح آبادیوں کے کھنڈرات یا باقیات موجود ہیں۔ مثلاً برطانیہ میں سالسبری اور سٹون ہینج ، لانگ باروز اور چاک ہارسز وغیرہ کے علاقے۔
بعض ماہرین کا کہناہے کہ ان دائروں کی تخلیق میں زمین کی مقاطیسی لہروں کا ہاتھ ہے، کیونکہ جن علاقوں میں یہ دائرے ظاہر ہوتے ہیں وہاں عموماً مقناطیسی لہریں بہت طاقت ور ہیں۔
ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ پراسرار دائروں کا ایک سبب ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، دائروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
آسٹریلیا کے برائن سالرنے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ انہیں پراسرار دائروں کے اندر آواز کی ہائی فریکوئنسی لہروں کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔
جب کہ کئی ماہرین نے پراسرار دائروں کے اندر تابکاری کی پیمائش بھی کی ہے، لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہے ہیں کہ کھیت کے اس مخصوص حصے میں تابکاری کہاں سےآئی ۔
دائروں کا طلسم
برطانیہ کے ایک ریسرچر رچ اینڈرز نےاپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ دائروں کے اندر تابکاری کے شواہد موجد تھے۔ قطب نما کام نہیں کررہا تھا۔ موبائل فونز کے سنگلز وصول نہیں ہورہے تھے۔ کیمرہ اور بجلی کے دیگرآلات نے اپنا کام چھوڑ دیا تھا۔ دائرے میں داخل ہونے والے افراد نے سردرد، متلی اور جسم کے مختلف حصوں میں درد کی شکایت کی اوران کی یہ کیفیت کئی دن بعد تک برقرار رہی۔ جب کہ دائرے کے قریب کھڑی گاڑیوں کی بیٹریاں ناکارہ ہوگئیں۔
اینڈرز کا کہنا ہے کہ دائرے کے اندر موجود پودے ایک خاص انداز میں زمین پر گرے ہوئے تھے۔ جب ان پر تجربات کیے گئے تو پتا چلا کہ کسی انتہائی گرم لہر کے گذرنے سے پودوں کے تنوں کے نچلے حصوں کے خلیے کمزور ہوگئے تھے۔ اور ان میں کھڑا رہنے کی سکت باقی نہیں رہی تھی۔ لیکن اگلے سال زمین کے متاثرہ حصے میں بوئی جانے والی فصل کی پیداوار تقریباً 40 فی صد زیادہ ہوئی۔
حیرت انگیزبات یہ ہے فصلوں میں یہ دائرے عموماً رات کی تاریکی میں بنتے ہیں ۔ اکثر اوقات یہ عمل رات کے ساڑھے گیارہ اور صبح چار بجے کے درمیان ہوتا ہے اور دائرہ یا ڈیزائن بننے میں ایک منٹ سے بھی کم وقت لگتا ہے۔
70 کے عشرے کے بعد سے 2011ء تک دنیا کے مختلف ملکوں میں فصلوں کے دس ہزار سے زیادہ پراسرار دائرے اور اشکال رپورٹ ہوچکی ہیں۔ یہ اشکال تقریباً 1900 اقسام کی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 90 فی صد دائرے برطانیہ میں دیکھے گئے ہیں جب کہ باقی دس فی صد کا تعلق امریکہ، افریقہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جنوبی امریکہ، روس اور جاپان سے ہے۔
انسانی ہاتھ
1991 ءمیں جریدے سائنٹیفک امریکن میں میٹ ریڈلی کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے لوگوں کو بےوقوف بنانے کے لیے ایک رسی اور لکڑی کے ایک ٹکڑے کی مدد سے شمالی انگلستان میں دائرے بنائے تھے۔
سائنسی جریدے ’فزکس ورلڈ‘ کے جولائی کے شمارے میں یورنیوسٹی آف آریگان کے میٹریلز سائنس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ٹیلر کا ایک مضمون شائع ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کھڑی فصلوں میں اس طرح کے دائرے لیزر کی شعاعوں، مائیکرو ویوز اور گلوبل پوزیشننگ سسٹم، یعنی جی پی ایس کی مدد سے بنائے جاسکتے ہیں۔
مگر یہ سوال تشنہ ہے کہ دور افتادہ دیہی علاقوں میں جدید سائنسی آلات کی مدد سے، سب کی نظروں سے چھپ کر دائرے بنانے کے مقاصد کیا ہیں؟ اگر چند مہم جو افراد یہ کام کررہے ہیں تو ایسی ہزاروں کارروائیوں کے باوجود ان میں سے کسی کو آج تک پکڑا یا دیکھا کیوں نہیں جاسکا۔
پراسرار دائرے مسلسل بن رہے ہیں۔ مگر کسی کے پاس اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ہے کہ انہیں کون بنارہا ہے اور کیوں بنا رہا ہے۔