پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے پاکستانی حکام سے ملاقاتوں میں جہاں دوطرفہ اقتصادی روابط کے فروغ پر بات کی وہیں پڑوسی ملک افغانستان میں امن و سلامتی کی صورت حال بھی زیر غور آئی۔
وزیر خارجہ جواد ظریف نے پیر کی شام اسلام آباد میں انسٹیٹویٹ آف اسٹرایٹیجک اسٹیڈیر میں ایک تقریب سے خطاب کے بعد سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ خطے میں داعش کی موجودگی تمام ہی ممالک کے لیے خطرہ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ داعش کو عراق میں زمینی شکست تو ہوئی لیکن بد قسمتی سے اُس کے نظریے اور نیٹ ورک کو شکست نہیں ہوئی۔
جواد ظریف نے کہا کہ افغانستان میں داعش اور طالبان میں ایک مقابلہ نظر آتا ہے کہ کون زیادہ تشدد کرتا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ جمعے کو قومی اسمبلی میں ایک بیان میں پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی کہا تھا کہ پڑوسی ملک افغانستان میں داعش کی موجودگی ایک خطرہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’’داعش ختم نہیں ہوئی، داعش نے صرف اپنا پتہ تبدیل کر لیا ہے۔۔۔ وہ عراق سے اپنا پتہ تبدیل کر کے افغانستان میں آ گئے ہیں۔‘‘
داعش کی افغانستان میں موجودگی پر افغان اور امریکی عہدیدار بھی تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں اور افغانستان میں اس تنظیم کے خلاف بھرپور کارروائی بھی کی جاتی رہی ہے۔
داعش نے افغانستان میں کئی بڑے حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی جب کہ پاکستان میں بھی اس تنظیم کی طرف سے بعض دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔
پاکستانی حکام کی طرف سے اس سے قبل بھی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ افغانستان میں داعش ایک بڑا چیلنج ہے، واضح رہے کہ پڑوسی ملک افغانستان میں داعش اُن علاقوں میں قدم جمانے کی کوشش کرتی رہی ہے جو پاکستانی سرحد کے قریب واقع ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے کے موقع پر افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کابل حکومت سے تعاون پر بھی بات چیت کی گئی۔
جواد ظریف نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پڑوسی ممالک افغانستان کی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں تو تبدیلی ممکن ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم یقینی طور پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔
’’جتنا بھی ہمارا یا پاکستان کا اثر و رسوخ ہے، ہم مل کر کام کر سکتے ہیں۔۔۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ آسان کام ہے لیکن ہمیں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے جواد ظریف سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ امن و مصالحت کے عمل میں تعاون کے لیے جب بھی افغانستان کو ضرورت پڑے گی، کابل کے ہمسایہ ممالک موثر تعاون کے لیے تیار ہیں۔