یوسف جمیل
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے گرمائی صدر مقام سری نگر میں اتوار کو پولیس پر کئے گئے حملے کہ ذمہ داری دولتِ اسلامیہ یا داعش نے قبول کرتے ہوئے کہا ہے اس کے بقول’ جنگ چھڑ چکی ہے‘۔
اس حملے میں جو استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس کے ایک لیڈر فضل الحق قریشی کے گھر کی حفاظت پر مامور پولیس اہل کاروں پر کیا گیا ایک پولیس اہل کار ہلاک ہوا تھا۔ حملہ آور اُس کی بندوق بھی اڑا کر لے گئے تھے۔
اس بندوق کی تصویر پیر کو شدت پسند تنظیم داعش سے وابستہ ویب سائٹ 'اعماق' پر ڈال دی گئی اس دعوے کے ساتھ کہ پولیس اہل کاروں پر حملہ اس کے جنگجوؤں نے کیا تھا۔ ویب سائٹ پر لکھا گیا۔’ کشمیر کے سری نگر شہر کے نزدیک کل فائرنگ کرکے پولیس کے ایک فرد کو قتل کردیا گیا۔ جنگ چھڑ چکی ہے۔‘
شورش زدہ ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس شیش پال وید نے داعش کی طرف سے کئے گئے اس دعوے کے ردِ عمل میں ایک نجی بھارتی ٹیلی ویژن چینل این ڈی ٹی وی کو بتایا ۔’ یہ بِلا شبہ ایک پریشان کُن اشارہ ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا،’ یہ اب واضح ہے کہ یہ حملہ بھی دولتِ اسلامیہ نے کیا ہے، ہم یہ کہنے میں غلط تھے کہ یہاں اس تنظیم کا کوئی وجود نہیں۔ تاہم ہم اب بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر موجود نہیں ہے۔ یہ حملہ کسی واحد بھڑیے نے کیا ہو یا چند ایسے افراد نے جو دولتِ اسلامیہ کے نظریے سے متاثر ہوئے ہیں‘۔
پولیس سربراہ نے تاہم یہ دعویٰ کیا کہ حریت کانفرنس کے لیڈر کے محافظ کو قتل کرنے والے شخص کی شناخت کرلی گئی ہے اور پولیس اُس کا تعاقب کر رہی ہے۔
بعد میں وید نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔’ یہ (داعش کا دعویٰ) اس کی ویب سائٹ پر کیا گیا ہے اور (پولیس اہل کار سے) چھینی گئی بندوق کی تصویر بھی وہاں ڈال دی گئی ہے اس لئے ہم اس بارے میں تب تک وثوق کے ساتھ کچھ نہ کہہ سکتے جب تک نہ ہم حملہ آوروں کو پکڑ لیتے ہیں"۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ داعش کے دعوے کو کس حد تک سنجید گی سے لیتے ہیں تو انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا۔ ’ انہوں نے نومبر میں بھی جب دہشت گرد مغیث مارا گیا تھا اس طرح کا دعویٰ کیا تھا لیکن زمین پر ایسا کچھ نہیں دکھائی دے رہا۔ کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ یہ سارا معاملہ تحقیقات طلب ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی بھیڑیے طرز کا مقامی آدمي ہو جو دولتِ اسلامیہ کے نظریے سے متاثر ہو کر اس کی تشہیر کر رہا ہے۔ با لکل ویسے ہی جیسے (مقامی عسکری تنظیم حزب المجاہدین کا سابق کمانڈر) ذاکر موسیٰ القاعدہ کے نظریے سے متاثر نظر آ رہا ہے‘۔
سری نگر میں ہی گذشتہ سال نومبر میں پولیس پر کئے گئے ایک حملے کے دوران جوابی کارروائی میں ہلاک ہونے والے ایک عسکریت پسند مغیث احمد میر کی تدفین میں ہزاروں لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ اس موقع پر کھینچی گئی تصویریں جن میں عسکریت پسند کی میت کوداعش کے جھنڈے میں لپیٹا ہوا دیکھا جاسکتا تھا سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہوگئی تھیں جس کے بعدد اعش نے 'اعماق' کے ذریعے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پولیس پر حملہ اس کے جنگجوؤں نے کیا تھا۔
لیکن بھارتی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں داعشکی موجودگی کے امکان کو خارج کردیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا–"ایسی رپورٹوں کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ سیکیورٹی ایجنسیاں اس معاملے کی تحقیقات کررہی ہیں اور اس بارے میں حکومت کو رپورٹ پیش کئے جانے کے بعد ہی کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے"۔ تاہم بھارتی وزیرِ داخلہ نے اس یقین کا اظہار بھی کیاتھا کہ بھارت کے مسلمان داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کو ملک میں جڑیں مضبوط کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا تھا۔ ’ مجھے ملک کے نوجوانوں پر پورا اعتماد ہے۔ وہ آئی ایس آئی ایس کے ہاتھوں گمراہ نہیں ہوں گے-ایک بھارتی مسلمان جو اسلام میں یقین رکھتا ہے داعش جیسی تنظیم کو ملک میں اپنی بنیاد ڈالنے کا موقعه فراہم نہیں کرے گا‘۔
ریاست کے پولیس سربراہ وید نے بھی علاقے میں داعش کے موجودگی سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ داعش سری نگر کے گلاب باغ علاقے میں 17 نومبر 2017 کو پیش آئے فائرنگ کے تبادلے میں جس میں ایک پولیس افسر بھی ہلاک ہوا تھا ملوث ہے اس کی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔
اس دوران وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے نئی دہلی میں وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کرکے ریاست کی مجموعی حفاظتی صورت حال اور حد بندی لائن پر بھارت اور پاکستان کی افواج کے ہو رہی جھڑپوں سے پیدا شدہ حالات پر غور و خوض کیا۔ عہدہ داروں کے مطابق، تازہ جھڑپوں میں پونچھ کے علاقے میں بھارت کے سرحدی حفاظتی دستے یا بی ایس ایف کے دو اہل کار زخمی ہو گئے جبکہ ایک گاؤ خانہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور وہاں موجود مویشی ہلاک ہو گئے۔