کانگریس مین ڈین برٹن امریکی سیاست میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ وہ امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی برائے یورپ اور یوریشیا کے چیئرمین ہیں ۔ اور پاک امریکہ تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ حال ہی میں وائس آف امریکہ نے دونوں ممالک کے تعلقات اور خطے کی صورت حال پر ان سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان یقنناً اختلافات موجود ہیں، لیکن صرف اختلافات کی بنیاد پر ہی دوستی ختم نہیں کی جاتی۔
ان کا کہناتھا کہ میرے خیال میں پاکستانی امریکن کمیونٹی ایک بہت اچھی کمیونٹی ہے۔ اس کمیونٹی کے لوگ بہت اچھے ہیں اور ان میں سےکئی ایک کے ساتھ میری اچھی دوستی ہے۔ میں پاکستان کی حمایت اس لیے بھی کرتا ہوں کیونکہ میں نے پاکستانی کاکس کی بنیاد ڈالی تھی، تاکہ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے مستقل اتحادی رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان اختلافات ضرور ہیں۔ لیکن صرف اختلافات کی بنیاد پردوستوں سے منہ نہیں موڑا جاتا۔ مثال کے طورپر میرے اپنی بیوی کے ساتھ بھی اختلافات ہوسکتے ہیں ، وہ بھی غلطی کرسکتی اور میں بھی غلطی کرسکتا ہوں۔ لیکن تعلق تو قائم رہتا ہے۔
ماضی کا ذکر کرتے ہوئے کانگریس مین ڈین برٹن نے کہا کہ پاکستان صرف روس کے افغانستان میں داخلے کے معاملے پر ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی تنازعات ہمارا بہت اچھا اتحادی رہاہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں پختہ تعلقات قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی ایک جوہری طاقت ہے۔ اور یہ اس علاقے کے تناظر میں ایک بہت اہم موضوع ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے اختلافات ختم کرنا اور تمام فریقوں کے درمیان دوستی قائم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ صورتحال ان کےلیے مایوس کن ہے تو انہوں نے پاکستان اور امریکہ دونوں کی طرف سے کچھ مایوسی کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کی حکومت اور فوج دونوں کے ساتھ بہتر تعلقات کی اہمیت پربھی زور دیا۔
ڈین برٹن کا کہنا تھا کہ مجھے امریکہ میں ہونے والے کچھ واقعات پر مایوسی ہے۔ پاکستان میں بھی کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جنہوں نے مجھے مایوس کیا۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کی حکومت اور فوج میں کچھ اختلافات رہے ہیں۔ میں تفصیلات میں نہیں جاوں گا۔ لیکن یہ ایسے معاملات ہیں جن کا پاکستان کو حل تلاش کرنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسل میں کوششیں کی جارہی ہیں اور ایسے میں یہ بہت ضروری ہو گا کہ ہم پاکستانی فوج اور حکام دونوں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم رکھیں۔ اسی لیے میں ایسے تعلقات کی حمایت کرتا رہوں گا۔
دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کانگریس مین ڈین برٹن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان قانون سازوں اور سرکاری عہدے داروں کا ہی نہیں بلکہ تعلیمی شعبے سے منسلک افراد کے تبادلے کے عمل کو بہتر بنانا بھی پاک امریکہ تعلقات کے لیے بہت فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں قانون سازوں اور تعلیمی شعبے سے تعلق رکھنے افراد کے تبادلے کے پروگرام کو بہتر بنانا ہوگا۔ دونوں ملکوں کے مختلف شعبوں کے عہدے داروں کے بڑی تعداد میں ایک دوسرے دوسرے کے ہاں آنے جانے ایک دوسرے کو بہتر طورپر سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو، صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔
2005ءکے زلزلے کے بعد کانگریس مین ڈین برٹن نےپاکستانی کشمیر کا دورہ کیا تھا۔ انہیں پاکستانیوں کی ہمت اور ان کا دوستانہ رویہ آج بھی یاد ہے۔ اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زلزلے کے بعد میں نے پاکستانی کشمیر کا دورہ کیا تھا اور میری ملاقات ایسے افراد سے ہوئی جنہیں زلزلے کی تباہ کاریوں سے شدید نقصان پہنچا تھا اور انہیں ہماری طرف سے کچھ امداد، ٹینٹ وغیرہ مل چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری بہت باہمت لوگ ہیں اور انہیں اللہ پر پورا یقین ہے اور ان کا رویہ بہت دوستانہ ہے۔ کئی لوگوں کا یہ تاثر کہ وہاں سبھی دہشت گرد ہیں، درست نہیں ہے۔ وہاں کے زیادہ تر افراد آپ سے دوستوں کی طرح پیش آتے ہیں۔ ان کے لیے بھی وہی باتیں پریشان کن ہیں جو ہمارے لیے ہیں۔ سو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں پختہ دوستی قائم رکھنی چاہیے۔