رسائی کے لنکس

ڈینئل پرل کیس: کیا سندھ حکومت کو سپریم کورٹ سے ریلیف مل سکتا ہے؟


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبے سندھ کی حکومت نے امریکی صحافی ڈینئل پرل قتل کیس کے مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کی سزائے موت ختم کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دیا ہے۔

رواں ماہ سندھ ہائی کورٹ نے ڈینئل پرل قتل کیس کے ملزم احمد عمر سعید شیخ کی سزائے موت کو ختم کر کے اغوا کے جرم میں اُنہیں سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ مقدمے کے دیگر تین ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

البتہ سندھ حکومت نے ملزمان کی سزائیں بحال کرنے کے لیے عدالت عظمی سے رُجوع کر لیا ہے۔

ڈینئل پرل امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' سے وابستہ تھے جنہیں مئی 2002 میں کراچی آمد پر اغوا کر لیا گیا تھا بعد ازاں ان کی لاش برآمد ہوئی تھی۔

سندھ حکومت کی درخواست کن بنیادوں پر ہے؟

سندھ حکومت نے سپریم کورٹ میں جو اپیل دائر کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے میں کئی اہم شواہد کو نظرانداز کیا گیا۔ اس کے علاوہ ملزمان کے اعترافی بیانات کو بھی فیصلے میں مدنظر نہیں رکھا گیا۔

سندھ حکومت نے اپیل میں موقف اختیار کیا ہے کہ ملزمان کا ٹرائل انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ہوا۔ جس کو عدالت نے فیصلے کے پیرا 14 میں تسلیم کیا۔ لیکن ملزمان کو رہا کرتے ہوئے اس ایکٹ کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ لہذٰا انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ عدالت عالیہ کے مطابق ثبوت فراہم کرنا استغاثہ کی ذمہ داری تھی اور اس ذمہ داری کو استغاثہ نے پورا بھی کیا۔ لیکن عدالت نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ یہ اغوا برائے تاوان کا کیس تھا جس میں ناکامی پر ایک بے گناہ شخص کو قتل کردیا گیا۔

سینئر قانون دان فاروق احمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے معروضی ثبوتوں اور حالات پر سزا سنائی۔

اُن کے بقول ہائی کورٹ میں جب یہ معاملہ آیا تو جو دفعات لگائی گئی تھیں ان کو ثابت نہیں کیا جاسکا۔ عدالت میں احمد عمر سعید شیخ کے خلاف صرف اغوا کا کیس بنتا تھا۔

ڈینئل پرل کو کس نے قتل کیا، کیسے قتل کیا اور ڈیڈ باڈی کدھر ہے؟ یہ وہ سب سوالات تھے جن کی بنا پر عدالت نے ملزمان کو شک کا فائدہ دیا ہے۔

سندھ حکومت کا استدلال ہے کہ ملزمان استغاثہ کی طرف سے پیش کردہ ثبوتوں کے جواب میں کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کر سکے جس سے ان کی بے گناہی ثابت ہوتی ہو۔

ڈینئل پرل کس اسٹوری پر کام کر رہے تھے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:56 0:00

سندھ حکومت کی اپیل میں کہا گیا ہے کہ ریمانڈ کے دوران اور جج کے سامنے احمد عمرسعید شیخ نے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ اور اپنے ساتھیوں کا بتایا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام ملزمان نے مل کر ڈینئل پرل کو اغوا اور پھر قتل کیا۔

اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ قانونِ شہادت آرڈیننس کے آرٹیکل 91 کے مطابق تمام تقاضے پورے ہونے کے باوجود بھی گواہان کے بیانات کو اہمیت نہیں دی گئی۔ ملزم احمد عمر سعید شیخ کی سزائے موت ختم کرنا انصاف کے قتل کے برابر ہے۔

سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ عدالت نے احمد عمر سعید کی شناخت پریڈ کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا جبکہ گواہان کی ملزم کے ساتھ کوئی شناسائی یا دشمنی بھی نہیں تھی۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے ملزمان سلمان ثاقب اور فہد نسیم کے اعترافی بیانات کو بھی اہمیت نہیں دی۔

سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ عدالت نے ٹیکسی ڈرائیور ناصر عباس کے بیان کو بھی اہمیت نہیں دی جس نے گواہی دی تھی کہ اُس نے ڈینئل پرل کو احمد عمر سعید شیخ کے ساتھ دیکھا تھا۔

سندھ حکومت کی اپیل میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے ملزمان کے کمپیوٹر سے حاصل کردہ ای میلز اورفرانزک ریکارڈ کو بھی تسلیم نہیں کیا۔

ایڈوکیٹ فاروق احمد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ایپلٹ فورم ہے اور اس سے رُجوع کرنا سندھ حکومت کا حق ہے۔ لیکن دیکھنا ہو گا کہ عدالت اس معاملے کو کیسے دیکھتی ہے۔ اور کیا ملزمان کو جو فائدہ دیا گیا ہے وہ انہیں ملنا چاہیے یا نہیں یہ عدالت کی صوابدید ہے۔

انہوں نے کہا کہ استغاثہ کی طرف سے ثبوت تو فراہم کیے گئے لیکن ایسے ٹھوس ثبوت نہیں ملے جس کی بنیاد پر اُنہیں سزا دی جاتی۔

پولیس تحقیقات کے بعد آلہ قتل، ڈیڈ باڈی یا ایسا کوئی اور ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ اُن کے بقول عدالت ٹھوس ثبوت مانگتی ہے جو شاید پولیس اور سندھ حکومت کے پاس نہیں ہیں۔

احمد عمر سعید شیخ (فائل فوٹو)
احمد عمر سعید شیخ (فائل فوٹو)

سپریم کورٹ میں دائر کردہ سندھ حکومت کی یہ اپیل اب تک سماعت کے لیے منظور نہیں ہوئی، تاہم امکان ہے کہ رواں ہفتے سماعت کے لیے منظوری کے بعد آئندہ چند دنوں میں اس کیس کی باضابطہ سماعت ہو گی۔

پولیس نے قتل کے الزام میں چار ملزمان عمر شیخ، فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو گرفتار کیا تھا جب کہ مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو قتل اور اغوا کے جرم ثابت ہونے پر ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی۔

چاروں ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی جب کہ استغاثہ کی جانب سے مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG