رسائی کے لنکس

سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی؛ ’بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘


سعودی عرب کے وزیر برائے اسلامی امور ڈاکٹر عبداللطیف الشیخ نے سوشل میڈیا پر اعلان کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کو ’دہشت گردی کا ایک دروازہ‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ معاشرے کے لیے خطرناک ہے۔ (فائل فوٹو)
سعودی عرب کے وزیر برائے اسلامی امور ڈاکٹر عبداللطیف الشیخ نے سوشل میڈیا پر اعلان کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کو ’دہشت گردی کا ایک دروازہ‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ معاشرے کے لیے خطرناک ہے۔ (فائل فوٹو)

سعودی عرب کی حکومت نے مذہبی میدان میں عالمی سطح پر سرگرم بھارت کی ’تبلیغی جماعت‘ پر دہشت گردی کا الزام عائد کرتے ہوئے پابندی لگا دی ہے۔

سعودی وزارت برائے اسلامی امور نے تمام مساجد کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں عوام کو بیدار کریں۔

وزیر برائے اسلامی امور ڈاکٹر عبداللطیف الشیخ نے سوشل میڈیا پر اس کا اعلان کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کو ’دہشت گردی کا ایک دروازہ‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ معاشرے کے لیے خطرناک ہے۔

رپورٹس کے مطابق وزارت کی جانب سے کی جانے والی ایک ٹوئٹ میں مساجد کے خطیبوں سے کہا گیا ہے کہ وہ جمعے کے خطبوں میں اس جماعت کی گمراہی کے بارے میں عوام کو بتائیں اور اس کی اہم غلطیوں کی نشاندہی کریں۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس (تبلیغ یا دعوة گروپ) سے کسی بھی قسم کی وابستگی ممنوع قرار دی جا رہی ہے۔

بعض مبصرین کے مطابق سعودی عرب کی مذہبی شخصیات ایک عرصے سے تبلیغی جماعت کو ’منحرف‘ گروہ قرار دے رہی ہیں۔ وہاں کے سابق مفتی اعظم عبد العزیز ابن باز نے 2012 میں کہا تھا کہ تبلیغی جماعت سے وابستگی کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ وہ ایک ’منحرف‘ جماعت ہے۔

سعودی حکومت کے اس فیصلے کو دہلی کے انگریزی، اردو اور ہندی کے اخبارات نمایاں انداز میں شائع کیا گیا ہے۔

دہلی کی بعض مسلم جماعتوں کی جانب سے اس فیصلے پر اظہارِ تشویش و افسوس کیا جا رہا ہے۔

لیکن تبلیغی جماعت کے دہلی میں موجود ترجمان کا کہنا ہے کہ تبلیغی جماعت پر پابندی نہیں لگائی گئی۔

جماعت کے ترجمان شاہد علی ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سعودی حکومت کی جانب سے تبلیغی جماعت پر پابندی لگانے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جس جماعت پر پابندی لگائی گئی ہے وہ جنوبی افریقہ کی تنظیم ’الاحباب‘ ہے۔

انھوں نے الزام لگایا کہ تبلیغی جماعت کو ایک بار پھر اسی طرح بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسے کرونا وبا پھیلنے کے سلسلے میں بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

شاہد علی ایڈووکیٹ تبلیغی جماعت کے خلاف قائم مقدمات میں جماعت کی جانب سے پیروی کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق تبلیغی جماعت نے 1980 کے بعد سے سعودی عرب میں تبلیغ کا کام بند کر دیا تھا۔

باخبر ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سعودی حکومت کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دے کر تبلیغی جماعت پر پابندی لگانے کی خبر درست ہے۔

انھوں نے کہا کہ سعودی عرب میں تبلیغی افراد کو ’احباب‘ اور تبلیغی جماعت کو ’جماعت التبلیغ و الدعوة‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ سے بات کرتے ہوئے جماعت کے ایک اور ترجمان سمیر الدین قاسمی نے سعودی حکومت کے فیصلے اور تبلیغی جماعت پر دہشت گردی کے الزام پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ دہشت گردی سے تبلیغی جماعت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

ان کے مطابق دہشت گردی کے حوالے سے سعودی عرب کی حکومت کو گمراہ کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق جماعت کی جانب سے دہشت گردی کی مذمت کی جاتی رہی ہے۔ اس کے اجتماعات میں کسی بھی مذہب، برادری یا ملک کے خلاف بولنے کی اجازت نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ تبلیغی جماعت سے متعلق کوئی بھی شخص دہشت گردی میں کبھی بھی ملوث نہیں رہا۔

بعض مبصرین کے خیال میں سعودی حکومت کی جانب سے تبلیغی جماعت پر پابندی لگائے جانے کے بعد بھارت میں بھی بعض مخصوص تنظیموں کی جانب سے ایسا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔

اسلامی امور کے ماہر پروفیسر اختر الواسع نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر یہاں تبلیغی جماعت پر پابندی کا مطالبہ ہو گا تو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہاں قانون کی پاسداری ہے اور دستور نے سب کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت دی ہے۔ ہمیں دستور کا تحفظ حاصل ہے۔ لہٰذا اگر یہاں ایسا کوئی مطالبہ ہوتا ہے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔

انھوں نے کرونا وبا کے سلسلے میں قائم کیے جانے والے مقدمات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس موقع پر تبلیغی جماعت کے خلاف کافی کارروائیاں ہوئی تھیں لیکن عدالتیں ان کارروائیوں کو پلٹ رہی ہیں۔

ان کے خیال میں سعودی حکومت نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے محرکات کے بارے میں وہی بتا سکتی ہے۔ تبلیغی جماعت دہشت گردی میں ملوث ہے یا نہیں یہ وہاں کی حکومت ہی جانتی ہو گی۔

تبلیغی جماعت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کا سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ وہ اپنے اجتماعات اور لوگوں کے درمیان سیاسی مذاکروں کو کبھی پسند نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی اجازت دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت سعودی عرب میں جو تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں وہ بھی اسی طرح ناقابلِ فہم ہیں جس طرح تبلیغی جماعت پر پابندی ناقابل فہم ہے۔

ان کے مطابق عالمِ اسلام کے ایک متفقہ و متحدہ ادارے ’رابطہ عالم اسلامی‘ کے قیام میں جو لوگ شامل رہے ہیں ان میں سے کئی شخصیات کا تعلق تبلیغی جماعت سے بھی رہا ہے۔

سینئر تجزیہ کار سید منصور آغا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سعودی عرب کی مساجد میں تبلیغی جماعت کی تبلیغ پر بہت پہلے سے پابندی عائد ہے۔ البتہ اب وہاں کی حکومت نے اس پر دہشت گردی کا جو الزام لگایا ہے وہ بہت سنگین ہے۔

ان کے مطابق اس بارے میں وہاں کی حکومت ہی وضاحت پیش کر سکتی ہے کہ کیا یہ سیاسی فیصلہ ہے یا واقعی اس کو تبلیغی جماعت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت ملا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پابندی کے دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے موقع پر اس کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے اور جس طرح کھلے مقامات پر نماز کو ایک ایشو بنایا جا رہا ہے اسی طرح اسے بھی ایک ایشو بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی حکومت کے اس فیصلے کے بعد دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی تبلیغی جماعت پر پابندی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔

بھارت میں دینی تعلیم کے سب سے بڑے ادارے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے ایک بیان جاری کر کے سعودی حکومت کے فیصلے پر اظہارِ تشویش کیا اور اس پر نظرِ ثانی کی اپیل کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کاندھلوی دار العلوم دیوبند کے صدر المدرسین مولانا محمود حسن کے شاگردوں میں سے تھے۔ تبلیغی جماعت کے اکابر کی جدوجہد دینی و علمی اعتبار سے مفید رہی ہے۔

ان کے مطابق جزوی اختلافات کے باوجود جماعت اپنے مشن پر کام کر رہی ہے اور کم و بیش پوری دنیا میں اس کا کام پھیلا ہوا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے سعودی حکومت کے حکم کو غلط اور غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔

انھوں نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ مذہبی تنظیموں کو ملک میں اپنی سرگرمیاں انجام دینے کی آزادی ہونی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تبلیغی جماعت ایک پُر امن جماعت ہے اور وہ اسلام کے لیے سرگرم ہے۔ سعودی حکومت کا فیصلہ غلط اور غیر منصفانہ ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG