اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ منگل کی رات گئے لیبیا کے دارالحکومت کے باہر واقع تارکین وطن کے ایک حراستی مرکز پر ہونے والے فضائی حملے میں کم از کم 44 افراد ہلاک، جب کہ 130 سے زائد زخمی ہوئے۔
عالمی ادارہ صحت کی ہنگامی صورت حال سے متعلق رابطہ کار، ڈاکٹر حسین یونس حسن نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں کا تعلق کئی افریقی ملکوں سے ہے، جن میں اریٹریا، صومالیہ، سوڈان اور موریتانیہ شامل ہیں۔
انھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی صومالی سروس کو بتایا کہ ’’جب انہیں ان حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے تو انہیں شناختی کارڈ نہیں دیے جاتے۔ حملے میں کئی قیدیوں کے جسم مسخ ہوچکے ہیں، اس حد تک کہ ان کی شناخت میں کافی وقت لگے گا‘‘۔
طرابلس کے حکام اس حملے کا ذمہ دار خلیفہ ہفتار کی وفادار افواج کو گردانتے ہیں، جو مشرقی لیبیا میں فوج کی قیادت کرنے والا آہنی شخص ہے۔ کئی ماہ تک، لیبیا کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت دارالحکومت کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے ہفتار کی لیبیائی قومی فوج سے نبردآزما رہی ہے۔
لیبیا میں اقوام متحدہ کے ایک اہلکار، غسان سلامہ نے کہا ہے کہ فضائی کارروائیاں ’’واضح طور پر جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں‘‘، چونکہ ان میں ’’بے گناہ افراد ہلاک ہوئے، وہ افراد جن کی بدحالی انہیں ان پناہ گاہوں تک کھینچ لائی‘‘۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے تارکین وطن اور افریقی یونین نے بھی ان فضائی حملوں کی مذمت کی ہے۔
حملوں کے بعد، عالمی ادارے کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین، فلپ گراندے نے کہا ہے کہ شہری آبادی کو ہدف نہیں بنایا جانا چاہیے، مہاجرین اور تارکین وطن کو قید نہیں کیا جانا چاہیے اور یہ کہ تارکین وطن کے لیے لیبیا محفوظ ملک نہیں ہے۔ یہ تارکین وطن بحیرہ روم کا خطرناک سفر کرکے یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
گراندے نے ان ملکوں سے مطالبہ کیا ہے کہ لڑائی کے خاتمے کے لیے مل کر کوششیں کی جائیں، جس کے لیے وہ متعلقہ فریقین پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔