رسائی کے لنکس

ضلع کرم میں چھٹے روز بھی جھڑپیں، ہلاکتوں کی تعداد 45 ہو گئی


  • افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع کرم میں چھ روز سے جھڑپیں جاری ہیں۔
  • حکام کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 45 تک جا پہنچی ہے جب کہ 177 زخمی ہوئے ہیں۔
  • حکام کا کہنا ہے کہ جھڑپوں کا آغاز زمین کے تنازع پر ہوا۔
  • اتوار کو رات گئے مزید چار مقامات پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور تازہ ترین جھڑہوں میں مزید آٹھ افراد جان کی بازی ہار گئے۔
  • ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کرم میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع کرم میں متحارب قبائل کے درمیان چھ روز سے جاری جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 45 ہو گئی ہے جب کہ 177 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔

ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کے بقول گاؤں بوشہرہ اور مالی خیل کے درمیان فائر بندی کے بعد کسی قسم کی فائرنگ نہیں ہوئی ہے۔ مگر اتوار کو رات گئے مزید چار مقامات پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور تازہ ترین جھڑہوں میں مزید آٹھ افراد جان کی بازی ہار گئے۔

زیادہ تر زخمی پاڑہ چنار کے ضلعی اور سدہ کے تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

ضلعی پولیس نے بھی اتوار اور پیر کی درمیانی شب تین مختلف مقامات پر متحارب قبائلیوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کی تصدیق کی ہے۔

واضح رہے کہ ضلع کرم میں کئی دہائیوں سے زمین کے تنازع پر لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں۔

برطانوی راج میں پہاڑوں یا دریا کے کنارے غیر آباد زمینوں کو شاملات کا نام دے کر اس کے لیے اصول مرتب کیے گئے تھے۔ یہ زمینیں قبائل کی مشترکہ ہوتی ہیں جیسے جنگلات، چراگاہ، پہاڑ یا دریا کے کنارے غیر آباد زمینیں، جنازہ گاہ اور قبرستان وغیرہ۔

لیکن کسی فریق کی جانب سے ان مقامات پر قبضے کی کوششوں کی وجہ سے یہ جھگڑے بعص اوقات فرقہ وارانہ کشیدگی کا بھی سبب بنتے رہے ہیں۔

پولیس عہدے دار کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان زمین کے تنازع پر تصادم شروع ہوا تھا جس کے بعد مختلف علاقوں میں مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔

حالیہ تصادم پاڑہ چنار کے دیگر علاقوں پیواڑ اور تری منگل کے علاقوں تک جا پہنچا جہاں متحارب قبائل کے مابین جھڑپیں شروع ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ لوئر کرم کے علاقوں میروکس اور بالش خیل میں بھی جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

پولیس حکام کے مطابق ضلعی انتظامیہ، عسکری قیادت، پولیس اور قبائلی عمائدین کی کوششوں کی وجہ سے گاؤں بوشہرہ میں لڑائی بند ہو گئی ہے۔

گاؤں بوشہرہ، مالی خیل اور ڈنڈر کے فریق جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے ہیں اور ان سے مورچے خالی کرا لیے گئے تھے۔ ان مورچوں میں پاکستان آرمی اور پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

کرم پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی علی افضل افضال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زخمیوں میں بعض کی حالت تشویش ناک ہے مگر راستوں کی بندش کے باعث انہیں کوہاٹ اور پشاور منتقل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

علی افضل افضال نے مزید بتایا کہ پاڑہ چنار اور پشاور کے درمیان مرکزی شاہراہ ہر قسم کی آمدورفت کے لیے ابھی تک بند ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ایک بیان میں کرم اور پاڑہ چنار میں بدامنی کے واقعات میں انسانی جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایچ آر سی پی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان علاقوں میں حریف قبائل کئی روز سے زمین کے تنازع کی وجہ سے آمنے سامنے ہیں جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی بھی بڑھ رہی ہے۔

ایچ آر سی پی نے خیبر پختونخوا حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لڑائی کے مستقل خاتمے کے لیے ثالثی کرے اور پرامن طریقے سے تمام معاملات کو حل کیا جائے۔

مصالحت کی کوششیں

کرم کے دو مختلف علاقوں میں بدھ کے روز جب جھڑپیں شروع ہوئیں تو ملحقہ اضلاع ہنگو اور اورکزئی سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل روایتی جرگہ ممبران نے فریقین میں فوری طور پر جنگ بندی اور مصالحت کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیں۔

جرگہ ممبران نے جمعے کو از خود ضلعی انتظامی اور پولیس عہدے داروں سمیت متاثرہ علاقوں بوشہرہ اور مالی خیل جاکر فریقین کو جنگ بندی پر راضی کیا تھا مگر بعد میں متحارب فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف فائرنگ شروع کر دی۔

قبائلی رہنما ملک عطاء اللہ نے کہا کہ متحارب فریقین میں جنگ و جدل کا یہ سلسلہ زمینی تنازعات پر پچھلے کئی دہائیوں سے جاری ہے جب کہ 2012 سے تو مسلسل فائرنگ اور قتل و غارت جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی، ہنگو اور اورکزئی کے جرگوں کی جانب سے مصالحت کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں لہذا حکومت فوری طور پر تمام ضم شدہ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل ایک با اختیار جرگہ تشکیل دے۔

عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے سربراہ میاں افتخار حسین نے بھی اتوار کو پارٹی کے صوبائی نائب صدر انجینئر شاہی خان شیرانی کے سربراہی میں ایک مصالحتی جرگہ تشکیل دے کر کرم روانہ کر دیا ہے۔

اس جرگہ میں ہنگو، اورکزئی اور کوہاٹ کے علاوہ جنوبی اور شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما بھی شامل ہیں۔

ڈپٹی کمشنر جاویداللہ محسود کا کہنا ہے کہ فائربندی کے لیے ہنگو اور اورکزئی سے امن جرگہ علاقے میں پہنچ کر فریقین کے عمائدین سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG