امریکہ میں صدارتی امیدوار کی نامزدگی کی دوڑ میں شامل اہم ریپبلکن امیدواروں کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں کم سے کم اجرت میں اضافے کی حمایت نہیں کریں گے۔
ریپبلکن پارٹی کا چوتھا مباحثہ منگل کو ریاست وسکونسن کے شہر ملواکی میں منعقد ہوا جس میں ان آٹھ امیدواروں نے حصہ لیا جنہیں حالیہ جائزہ رپورٹس میں مقبولیت کے اعتبار سے کم ازکم 2.5 فیصد پسندیدگی حاصل ہے۔
ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ٹیکسوں اور اجرتوں کی شرح پہلے ہی کافی بلند ہے، جس سے امریکہ کے لیے عالمی منڈیوں میں مسابقت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
ماحثے سے قبل جاری ہونے والے جائزے میں نیوروسرجن بین کارسن اور ٹرمپ ریپبلکن امیدواروں میں سرفہرست ہیں اور ایک دوسرے کے برابر ظاہر کیے گئے۔
کارسن کا کہنا تھا کہ کم سے کم اجرت میں کیے جانے والے کسی بھی اضافے کے ساتھ ہی بے روزگار افراد خصوصاً سیاہ فام امریکی بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔
فلوریڈا سے سینیٹر مارکو روبیو نے لاکھوں امریکیوں کی اجرتوں کو بڑھانے سے قبل ٹیکس، قوانین میں اصلاحات اور تعلیم پر توجہ دینے پر زور دیا۔
امیگریشن کے معاملے پر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تمام غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے ملکوں میں واپس بھیج دیا جائے۔
"ہم قوانین والا ملک ہیں۔ ہمیں سرحدیں چاہیئں۔ ہم دیوار بنائیں گے، وہ دیوار کامیاب ہوگی اور اگر آپ سوچتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا تو اسرائیل سے پوچھیے۔"
مباحثے میں شریک ٹیکساس سے سینیٹر ٹیڈ کروز نے کہا کہ امریکہ کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ قانونی تارکین وطن کو قبول کرے جب کہ اس قانون کی حکمرانی بھی لاگو کرے کہ "ہر خودمختار قوم اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے۔"
لیکن مباحثے کے دیگر شرکا کا خیال اس سے مختلف تھا جن میں اوہائیو کے گورنر جان کاشچ کہنا تھا کہ ایک کروڑ دس لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا کوئی بھی منصوبہ "بے وقوفی" ہے۔
ان کے بقول ایک ایسا نظام ہو جس میں قانون کی پاسداری کرنے والے یہاں رہنے کے لیے کچھ جرمانہ ادا کریں۔
فلوریڈا کے سابق گورنر جیب بش نے کہا کہ غیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری "بہت سے خاندانوں کی تقسیم" کا باعث بنے گی۔ انھوں نے ایسے لوگوں کو وقت کے ساتھ ساتھ قانونی حیثیت حاصل کرنے کی طرفداری کی۔