گزشتہ ماہ قصور میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی کم سن بچی زینب کے قاتل عمران علی کو سرِ عام پھانسی دینے کے مطالبات کو متعلقہ حکام نے مسترد کرتے ہوئے سزائے موت پر اس طرح کے عمل درآمد کو آئین کے منافی قرار دیا ہے۔
بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں اس بارے میں مشاورت کی گئی جس میں وزیرِ قانون بشیر ورک، صوبائی داخلہ سیکرٹریز، اسلامی نظریاتی کونسل کے نمائندوں کے علاوہ پنجاب اور بلوچستان کے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات بھی شریک ہوئے۔
اجلاس میں وزیرِ قانون نے موقف اختیار کیا کہ سرِ عام پھانسی دیا جانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور ہو گی اور ان کے بقول جذبات ایک طرف رکھتے ہوئے، آئین سے متصادم اقدام سے گریز کیا جانا چاہیے۔
گزشتہ ہفتے ہی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے عمران علی کو چار مرتبہ سزائے موت سنائی تھی۔
متاثرہ خاندان کے علاوہ بعض سماجی حلقوں کی طرف سے بھی قاتل کو سرِ عام پھانسی دینے کے مطالبات سامنے آئے تھے جب کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے موجودہ قانون میں ایک ترمیم کی تجویز بھی دی تھی جس کے تحت بچوں کے اغوا، قتل اور جنسی زیادتی میں ملوث مجرموں کو موت کی سزا سرِ عام دی جاسکے گی۔
بدھ کو ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں شریک صوبائی حکام کا موقف تھا کہ اس معاملے میں قانون میں تبدیلی ضروری نہیں اور سرِ عام پھانسی نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ اس سے امن و امان کی صورتِ حال بگڑنے کا خدشہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی سرِ عام پھانسی دینے کے مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد جیل کے اندر ہی کیا جائے لیکن اگر ممکن ہو تو اس کو الیکٹرانک میڈیا پر دکھایا جائے۔
تاہم اجلاس میں قانون سازوں نے اس تجویز کی مخالفت کی۔
قائمہ کمیٹی نے وزارتِ قانون کو ہدایت کی کہ وہ اس بارے میں ایک واضح رپورٹ پیش کرے کہ آیا سرِ عام پھانسی دیا جانا آئین اور سپریم کورٹ کے حکم کے منافی ہوگا یا نہیں اور کیا اس کے لیے قانون میں کسی ترمیم کی ضرورت ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ سینئر قانون دان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ عوامی جذبات اپنی جگہ لیکن سرعام پھانسی دیا جانا مناسب نہیں اور اس سے معاشرے میں بہتری کی بجائے اضطراب پیدا ہوگا۔