واشنگٹن —
اقوام متحدہ کے سفارت کار، جنھیں شام کے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے سے متعلق رابطے کے کام پر مامور کیا گیا ہے، کہا ہے کہ اُنھیں توقع ہے کہ اِس ماہ کے اواخر تک یہ معلوم ہوجائے گا کہ ہتھیاروں کے اِس ذخیرے کو کہاں تباہ کیا جائے گا۔
ڈینمارک سے تعلق رکھنے والی ایلچی، سگرڈ کاگ نے یہ بات منگل کے روز نیو یارک میں تقریر کرتے ہوئے کہی۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس ہفتے ہیگ میں ہونے والی بات چیت میں شامی حکام اور کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت سے متعلق تنظیم کے نمائندے یہ طے کریں گے آیا اِن ہتھیاروں کو، فی الواقع کس مقام پر تلف کیا جائے گا۔
اُنھوں نے اِس توقع کا اظہار کیا کہ 15 نومبر تک اس معاملے پر فیصلہ ہوجائے گا۔
دریں اثنا، جنیوا میں شام سے متعلق اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے ایلچی، لخدار براہیمی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اُنھیں امید ہے کہ حکومتِ شام اور باغیوں کے مابین امن بات چیت اِسی سال کے آخر تک ہوگی، جب کہ باغی اسد حکومت کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔
اس سے قبل، براہیمی نے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ اِس مہینے کی آخر تک وہ شام اور حزب مخالف کے وفود کو جنیوا میں اکٹھا کرلیں گے۔ تاہم، منگل کو اُنھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پیش رفت میں تاخیر کا عنصر اِس لیے نمایاں ہے، کیونکہ مخالف دھڑے مذاکرات کے لیے ایک قابل اعتماد وفد تشکیل نہیں دے پائے۔
باغی دھڑوں میں اختلافات کے بارے میں براہیمی کے دعوے کی اُس وقت تصدیق ہوئی جب رواں ہفتے کے آغاز پر امریکی حمایت سے چلنے والی ’فِری سیریئن آرمی‘ سے تعلق رکھنے والے باغیوں کے اعلیٰ لیڈر، جو حکومت شام سے نبرد آزما ہیں، باغی گروپوں کے درمیان اندرونی جھگڑوں پر احتجاج کرتے ہوئے، مستعفی ہوگئے۔
ڈینمارک سے تعلق رکھنے والی ایلچی، سگرڈ کاگ نے یہ بات منگل کے روز نیو یارک میں تقریر کرتے ہوئے کہی۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس ہفتے ہیگ میں ہونے والی بات چیت میں شامی حکام اور کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت سے متعلق تنظیم کے نمائندے یہ طے کریں گے آیا اِن ہتھیاروں کو، فی الواقع کس مقام پر تلف کیا جائے گا۔
اُنھوں نے اِس توقع کا اظہار کیا کہ 15 نومبر تک اس معاملے پر فیصلہ ہوجائے گا۔
دریں اثنا، جنیوا میں شام سے متعلق اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے ایلچی، لخدار براہیمی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اُنھیں امید ہے کہ حکومتِ شام اور باغیوں کے مابین امن بات چیت اِسی سال کے آخر تک ہوگی، جب کہ باغی اسد حکومت کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔
اس سے قبل، براہیمی نے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ اِس مہینے کی آخر تک وہ شام اور حزب مخالف کے وفود کو جنیوا میں اکٹھا کرلیں گے۔ تاہم، منگل کو اُنھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پیش رفت میں تاخیر کا عنصر اِس لیے نمایاں ہے، کیونکہ مخالف دھڑے مذاکرات کے لیے ایک قابل اعتماد وفد تشکیل نہیں دے پائے۔
باغی دھڑوں میں اختلافات کے بارے میں براہیمی کے دعوے کی اُس وقت تصدیق ہوئی جب رواں ہفتے کے آغاز پر امریکی حمایت سے چلنے والی ’فِری سیریئن آرمی‘ سے تعلق رکھنے والے باغیوں کے اعلیٰ لیڈر، جو حکومت شام سے نبرد آزما ہیں، باغی گروپوں کے درمیان اندرونی جھگڑوں پر احتجاج کرتے ہوئے، مستعفی ہوگئے۔