رسائی کے لنکس

دفاعی نمائش: ممنوعہ چیزوں کےبارے میں ضابطوں کی تشہیر اورعمل درآمد


دفاعی نمائش: ممنوعہ چیزوں کےبارے میں ضابطوں کی تشہیر اورعمل درآمد
دفاعی نمائش: ممنوعہ چیزوں کےبارے میں ضابطوں کی تشہیر اورعمل درآمد

دفاعی تجزیہ کارجنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا ہے کہ لندن میں ہونے والی بین الاقوامی دفاعی نمائش کے منتظمیں کا یہ فرض بنتا تھا کہ وہ قابلِ اعتراض چیز کی نشاندہی کرتے’اور وہ چیز ہٹالی جاتی‘، بجائے اِس کے کہ پاکستانی اسٹال کو ہی بند کردیا جاتا۔ اُن کےبقول، پھر یہ کہ اگر اُسی طرح کا اسلحہ دوسرے اسٹالوں پر بھی موجود تھا، تو کیا اُنھیں بھی بند کردیا گیا؟

اتوار کو ’وائس آف امریکہ‘ کے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے، جنرل (ر) طلعت نے کہا کہ اگر یہ معاملہ ایک نئی بین الاقوامی کنوینشن کے زمرے میں آتا تھا، جِس کا اطلاق10 اگست سے ہو چکا ہے، تو پھر شرکا اورمنتظمیں کا یہ فرض بنتا تھا کہ اُس پر عمل درآمد کو یقینی بناتے۔

ایک اور سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان آرڈننس فیکٹری کی قیادت کو اِس بات کا علم نہ ہو کہ یہ کنوینشن عمل میں آچکا ہے۔ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ یہ کہنا ’قبل از وقت ہوگا کہ پاکستان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک ہوا ہے، کیونکہ اِس کے بارے میں (ابھی تک) ہمیں پوری معلومات نہیں ہے‘۔

سیاسی تجزیہ کارسلیم بخاری کے بقول، ’یہ ایک امتیازی سلوک ہے‘۔ اُن سے معلوم کیا گیا تھا کہ کیا یہ ضابطوں کو مدِ نظر نہ رکھنے کا معاملہ ہے؟ اُن کے الفاظ میں: ’اور، یہ امتیازی سلوک پہلی مرتبہ نہیں برتا گیا،۔۔۔ جب کہ، دوسرے ممالک کے ساتھ یہ رویہ نہیں ہے‘۔

مستقبل کی دفاعی نمائشیں اور پاکستان کی شرکت کے بارے میں ایک سوال پر، سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ،’ صرف پاکستان کے خلاف کارروائی ہونا قابلِ اعتراض بات ہے، جس پر پاکستان کو احتجاج کرنا چاہیئے‘۔ اُن کا کہنا تھا کہ لاگو ہونے والے کنوینشن کی واضح طور پر تشہیر ہونی چاہیئے تھی اور دفاعی نمائش میں شرکت حکومتی سطح پر تھی جیسا کہ پی او ایف ایک سرکاری ادارہ ہے۔ اُن کے الفاظ میں ’اگرکنوینشن کے بارے میں تشہیر ہوتی تو متعلقہ ممالک کے کسٹم حکام کسی قابلِ اعتراض چیز کو کلیئر ہی نہ کرتے اور اِس طرح سےوہ مصنوعات نمائش تک پہنچ ہی نہ پاتیں۔‘

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG