امریکہ میں ایک زمانےمیں ’رولرڈربی‘ خواتین اورمردوں میں ایک مقبول ترین کھیل تھا۔ تاہم، دس برس قبل آسٹن ،ٹیکسس میں خواتین نے اِس کھیل کا دوبارہ آغازکیا، جِس کے بعد یہ پورے امریکہ میں کھیلا جانے لگا۔
آج ہم آپ کو ڈینور میں کھیلےجانے والے قومی رولر ڈربی چیمپین شپ کی ایک ٹیم ٹیگزی کیوشنر سے متعارف کرائیں گےجس کا تعلق ٹیکسس سے ہے جہاں اس کھیل کا دوبارہ آغاز کیا گیا ۔ہوسکتا ہے کہ یہ ایک پروفیشنل کھیل نہ ہو لیکن یہ کھلاڑی نو آموز نہیں ہیں۔
ریاست ٹیکسس کے شہر آسٹن کے اِن کھلاڑیوں نے ڈینور میں ہونے والے نیشنل چیمپین شپ میں کانسی کا تمغہ جیتا ہے ۔
ٹیگزی کیوشنر ٹیم کی ایک کھلاڑی مولوٹو ایم پیل بتاتی ہیں کہ یہ واقعی انتہائی ہوشیار، مخلص صلاحیتوں اور تمام تر انقلابی طاقت رکھنے والی خواتین ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو چیزوں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور خود پر انحصار کرتے ہیں میں یہ طاقت حاصل کرنا چاہتی تھی جو چیزوں کو منور کردے۔
رولر ڈربی میں دو ٹیموں کے پانچ کھلاڑی ہوتے ہیں جو ایک ٹریک کے گرد ایک ہی سمت میں ریس لگاتے ہیں۔ ہر ٹیم کا تیز ترین کھلاڑی جیمر کھلاتا ہے جو مخالف ٹیم کے ارکان سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے ۔مخالف ٹیم کے ارکان کو بلوکرس کہتے ہیں جب جیمر / بلوکر سے آگے بڑھتا ہے تو اسے پوائینٹس ملتے ہیں۔ اس کیھل میں اکثر کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔مولٹوو ایم پال کہتی ہیں کہ جب رولر ڈربی کا دس برس قبل دوبارہ آگاز ہوا تو اس کا اپنا ایک مقام تھا۔وہ کہتی ہے کہ اس کھیل میں بہت انفرادیت اور سٹائل تھا جو اب بھی قائیم ہے اور آپ اسے ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ اب یہ باقائدہ کھیلوں میں شمار ہونے لگا ہے اور یہ کوئی ثقافتی کھیل نہیں رہا۔
آج دنیا بھر میں1000 سے زیادہ لیگ رولر ڈربی کھیلتے ہیں اور امریکہ کے ہر کونے میں ایک ٹیم دیکھی جاسکتی ہے۔
سوزی ہاٹ راڈ نیو یارک کی ٹیم دی گوتھم گرلز کی مایہ ناز کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں ۔یہ ٹیم نیشنل چیمپین شپ جیت چکی ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ آج کے زمانے میں ایتھلیٹ ازم رولر ڈربی کے لیے اہم ہے۔
رولر ڈربی خواتین کے لیے ایک دلچسپ کھیل ہے یہ خواتین کو بااختیار اور پر اعتماد بنانے سے متعلق ہے ۔یہ ایک ایسا کھیل ہے جہاں ہر کوئی آسکتا ہے اور کھیل سکتا ہے اس کھیل نے میری زندگی بدل دی ہے۔ہوسکتا ہے کہ یہ کھیل ایتھلیٹ کی جانب بڑھ رہا ہوں مگر اس کھیل کے شائیقین اس کھیل کو دیکھنا بہت پسند کرتے ہیں۔رولر ڈربی کے ساتھ کچھ بھی ہو شائیقین کو امید ہے کہ اس کھیل کا جوش و خروش جاری رہے گا۔