سرحدی تنصیبات پر مبینہ افغان جنگجوؤں کے یکے بعد دیگرے حملوں میں 14 فوجیوں کی ہلاکت پر پاکستان نے افغانستان سے شدید احتجاج کیا ہے۔
اسلام آباد میں افغان سفارتخانے کے نائب سربراہ کو پیر کے روز دفتر خارجہ طلب کر کے سرحد پار سے عسکریت پسندوں کی دراندازی کی شدید مذمت کی گئی۔ وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق ’’افغان حکومت سے ان کارروائیوں کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا‘‘۔
فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ درجنوں مسلح عسکریت پسندوں نے جمعہ اور اتوار کو سرحد عبور کر کے دور دراز شمال مغربی ضلع دیر بالا میں حفاظتی چوکیوں اور گشت پر معمور سرحدی محافظوں کو نشانہ بنایا۔
ان حملوں میں مجموعی 14 فوجیوں کے علاوہ مقامی امن لشکر کے پانچ رضا کار بھی ہلاک ہوئے۔
عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ اتوار کو جدید ہتھیاروں سے لیس 100 سے زائد جنگجوؤں نے دیر بالا میں گشت پر معمور ایک ٹیم پر دھاوا بول کر 6 اہلکاروں کو ہلاک کر دیا جب کہ 11 فوجیوں کو یرغمال بنا لیا گیا جن میں سے اطلاعات کے مطابق بعد میں 7 کو قتل کر دیا گیا۔
اس سے قبل جمعہ کو شدت پسندوں نے ایک سرحدی چوکی پر حملہ کیا تھا جس میں ایک سکیورٹی اہلکار اور مقامی امن لشکر کے پانچ رضا کار ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستانی حکام کے بقول سرحدی علاقے میں کیے گئے دونوں حملوں کو جوابی کارروائی کر کے پسپا اور کم از کم 23 ’’دہشت گردوں‘‘ کو ہلاک کر دیا گیا۔ تاہم آزاد ذرائع سے ان سرکاری دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ پیر کو لوئر دیر کے علاقے تریمان میں سرحد پار افغانستان سے شدت پسندوں نے دو راکٹ داغے اور ماہر نشانہ بازوں نے فائرنگ بھی کی۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے پیر کو کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے پر افغان قیادت سے بات کریں گے۔
’’پاکستان کی حکومت نے بھرپور پروٹیسٹ (احتجاج) کیا ہے اور اس معاملے پر میں بھی انشا اللہ (افغان) صدر حامد کرزئی سے بات کروں گا۔‘‘
اس سے قبل مشیر داخلہ رحمٰن ملک نے افغان وزیر داخلہ سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے اس واقعہ پر احتجاج کیا اور عسکریت پسندوں کی سرحد کے آر پار آزادانہ نقل و حرکت کا الزام افغان حکام پر لگایا۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان فوج نے بھی سرحد پار جنگجوؤں کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی نا کرنے پر افغان عسکری ہم منصبوں سے احتجاج کیا ہے۔
افغان مشرقی صوبوں کنڑ اور نورستان سے ملحقہ اس پاکستانی علاقے میں اس سے قبل بھی سرحد پار سے شدت پسند حملے کرتے آئے ہیں۔
فوجی حکام کا کہنا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن بشمول وادی سوات اور قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے فرار ہونے والے جنجگوؤں نے سرحد پار اپنی پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جنہیں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔