رسائی کے لنکس

پاکستان میں جبری گمشدیوں کا مسئلہ سنگین ہو رہا ہے


لاپتا افراد کے رشتے دار اور عزیز ان کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
لاپتا افراد کے رشتے دار اور عزیز ان کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران شروع ہوا تھا جو تاحال رک نہیں سکا۔ لا پتا ہو جانے والے افراد کے لواحقین اس کا الزام خفیہ اداروں پر لگاتے ہیں جب کہ وہ لاعملی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، کچھ لوگ از خود گھر چھوڑ کر کہیں روپوش ہوجاتے ہیں اور اس گم شدگی کو اداروں کے سر تھونپ دیا جاتا ہے۔

گل رخ

پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اپنے حالیہ اجلاس میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا۔ سینیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ ملک میں جبری گمشدگیوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ملوث ہیں جس کی وجہ سے لاپتا افراد کا مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا ہے۔

کمیٹی کے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ قانون ساز چاہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو کسی الزام میں اٹھایا گیا ہے تو اُسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ ہمارے علم میں ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں لوگوں کو اٹھا لیتی ہیں اور پھر ان کا برسوں، مہینوں، ہفتوں پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ ہیں کہاں اور ان کو کسی کورٹ آف لا میں پیش نہیں کیا جاتا۔

پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد کی تعداد روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ حالیہ تاریخ میں جبری گمشدگیوں معاملہ پہلی بار سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں اس وقت منظرِ عام پر آیا جب پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے بعد سے لاپتا افراد کا یک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو۔

نسرين جلیل نے کہا کہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اس کو عدالت کے سامنے پیش کرکے قانونی عمل کے تحت مقدمہ چلانا چاہیے۔

سینیٹر نسرین جلیل کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی کمیٹی نے انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاويد اقبال کو بھی کمیٹی کے اجلاس میں بلایا گیا تھا تاکہ وہ بتا سکیں کہ اب تک کتنے لوگوں کی بازیابی عمل میں آ ئی ہے۔ تاہم جسٹس ریٹائرڈ جاويد اقبال نے کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی جس پر کمیٹی کے اراکین کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔

اس حوالے سے انسانی حقوق کمشن کی سابق سر براہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2001 میں جب پاکستان نے افغان جنگ میں امریکہ کے ساتھ شمولیت اختیار کی، تو اس وقت زیادہ تر افراد کو خیبر پختون خوا جبکہ بعد میں بلوچستان سے اٹھایا گیا تھا، ان کا تعلق مختلف مذہبی جماعتوں یا مذہبی تنظیموں سے تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب 2006میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا تو ان کی تنظیم انسانی حقوق کمشن نے فروری 2007 میں سپریم کورٹ میں 280 لاپتا افراد کی مفصل فہرست پیش کی۔ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس مسئلے میں خاصی دلچسپی لی مگر کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی ۔پھر حکومت کی طرف سے 2010میں کمشن آف انکوائری آن انفورسڈ دس اپیرنس قائم ہوئی۔ جس کی بدولت کچھ افراد کی واپسی ہوئی۔ زہرہ یوسف نے کہا کہ کمشن نے ان افراد سے کوئی پوچھ کچھ نہیں کی کہ انہیں کس نے کیوں غیر قانونی طریقے سے اٹھا یا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ، ملک میں جبری گم شدہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہیں ۔مگر ان کی درست تعداد کے بارے میں کہنا ا س لئے مشکل ہیں کیوں کہ ہر کیس کو رجسٹرڈ کرنا ممکن نہیں ۔ زہرہ یوسف کے مطابق بلوچ قوم پرست افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے اور گذشتہ کچھ مہینوں میں یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سندھ میں بھی ان افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔جبری گمشدگی کے اس سلسلے میں کوئی نمایاں کمی نہیں آئی۔

دوسری طرف پاکستان میں انسانی حقوق تحفظ کے سرکاری ادارے کے سر براہ جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جبری گمشدگی کی صحیح تعداد متعین کرنا مشکل ہے کیونکہ ان میں بعض لوگ رجسٹرڈ نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں لاپتا افردا کے حوالے سے کوئی قانون نہیں ہے۔

علی نواز چوہان نے کہا کہ حال ہی میں سینٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چیئرمین نسرين جلیل نے 64 لاپتا افراد کی فہرست دی جن میں کچھ افراد کے نام ان کے پاس بھی تھے اور اس طرح یہ تعداد 56 ہوگئی۔ جب ہم نے نسرين جلیل کی شکایت پر تحقیق کی تو زیادہ افراد مختلف مقدمات میں ملوث تھے ۔تاہم ان کی مکمل تعداد سرکاری طور پر نہیں ہے۔

ان کا مزید کہناتھا کہ یہ ایک شرمناک بات ہے کہ لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے اٹھا یا جاتا ہے اور ان کا کوئی پتا نہیں چلتا ۔ علی نواز چوہان نے کہا کہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کرے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو غیر قانونی طور پر اٹھانے کا سارا إلزام ایجنسیوں پر عائد ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ اس میں کوئی مکمل حقیقت نہ بھی ہو اسی لیے ایجنسیوں کو چاہیے کے یہ ساری چیزیں واضح کریں تاکہ ان کی بدنامی نہ ہو اور اگر بیرونی طاقتیں کچھ کر رہی ہیں تو بھی ایکشن لیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں حکومت اس پر توجہ نہیں دے رہی اور نہ ان کے ساتھ تعاون کر رہی ہے خاص کر وزارت داخلہ نے 2011 میں جو ٹربیونل بنا یا تھا اس کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔

علی نواز چوہان کا کہناتھا کہ جب تک پاکستان لاپتا افراد کے لیے اقوام متحدہ کے معاہدے اور انفورسڈ افییرز ٹریٹی پر دستخط نہیں کرتا اور اس کے سبب اپنے ملک میں ایسا قانون نہیں بناتا جو کہ خاص کر گم شدہافراد کے بارے میں ہو ۔یہ مسئلہ گھمبیر بنا رہے گا۔

ایک غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل وائس فار بلوچ مسننگ پرسن کے بانی ماما عبدالقدیر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسخ شدہ لاشو ں اور لاپتا افراد کی روک تھام کے لئے وہ آٹھ سال سے کوشش کر رہے ہیں۔ لاپتا افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے لانگ مارچ بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس سال کے شروع سے اب تک 35540افراد گم شدہ، دس ہزار تک مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں ان میں 2000 ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہوئے ہیں جبکہ حکومت تو بالکل ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ اور ان میں آئی ایس آئی، ایم آئی، اور ایف سی کے اہل کار ملوث ہیں۔ ہمیں زبردستی خاموش کیا جاتا ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی مائکان آبابتی کے بھا ئی سردار دارو خان آبابتی کو 28 ستمبر 2010 کو کو حکومتی اہل کاروں نے اٹھایا تھا اور اس کا تاحال کوئی پتہ نہیں۔ مائکان کا کہنا تھا کہ 12 کے قریب گاڑیاں آئی تھی اور گھر سے اس کے بھائی کو اٹھا کے لے گئے۔ ماما قدیر نے کہا کہ اس وقت سے آج تک اس کا پورا گھر پریشان رہتا ہے ۔اور حکومت سے التجاء ہے کہ اگر وہ قصور وار ہے تو اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ ورنہ اسے اس کے گھر واپس بھیجا جائے۔

XS
SM
MD
LG