امریکہ نے مذہبی آزادی سے متعلق بین الاقوامی رپورٹ میں پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں قید آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال روکا جائے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے سال 2018 کے بارے میں بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ جاری کی جس میں پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ملک میں اقلیتوں کو تحفظ دینے اور اُن کی مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔
رپورٹ میں پاکستان کے توہین مذہب کے قانون کا ذکر کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے جرم میں کم سے کم 77 افراد جیل میں قید ہیں جن میں سے 28 افراد کو سزائے موت دی گئی ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک سال کے دوران پاکستان میں توہینِ مذہب کے الزام میں مزید سات مقدمات درج ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں اکتوبر 2018 میں توہین مذہب کے الزام میں قید آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ کی جانب سے بری کیے جانے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا گیا لیکن پاکستان کے عدالتی نظام میں ذیلی عدالتیں توہین مذہب کے مقدمات میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر پاتی ہیں۔
گو کہ آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے بعد مذہبی جماعت تحریک لیبک یا رسول اللہ نے ملک گیر احتجاج کیا لیکن بعد میں جماعت کے رہنماؤں کے خلاف حکومت نے کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے پاکستان کے وزیر برائے مذہبی اُمور نے کہا تھا کہ قانون میں اگر کوئی بھی ترمیم متعارف کروائی گئی تو حکومت اُس کی بھرپور مخالفت کرے گی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے اور بقول ان کے کوئی بھی مذہبی ریاست جمہوری ریاست نہیں ہو سکتی کیونکہ مذہبی ریاست میں اقلیتوں کو ہمیشہ مساوی حقوق حاصل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ’ پاکستان میں مذہبی گروہ تعداد میں محدود ہے لیکن اُس کا اثررو رسوخ بہت زیادہ ہے اور جب مذہب کا معاملہ آتا ہے تو ریاست کا رویہ معذرت خواہانہ ہو جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ایسے حالات میں پاکستان کی مذہبی اقلتیں خاص کر احمدیوں کے حالات اچھے نہیں ہیں۔
سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں احمدی برادری کو سب سے زیادہ توہین مذہب کے مقدمات کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے اور امتیازی رویوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ اس قانون سازی کے ذریعے اُن کے بنیادی حقوق بھی صلب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انھیں سرکاری سکولوں، تعلیمی اداراوں اور ملازمت کے مقامات پر امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
رپورٹ میں ماہر اقتصادیات عاطف میاں کا ذکر کیا گیا جنھیں تحریک انصاف کی حکومت نے قومی اقتصادی کونسل کے رکن کے طور پر منتخب کیا تھا لیکن مذہبی حلقوں کے دباؤ کے بعد احمدی ہونے کے سبب اُن کی نامزدگی کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
رپورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے اُس فیصلے کا ذکر موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جج، سرکاری ملازمین اور فوج کے اہلکار اپنے مسلمان ہونے کا حلف نامہ جمع کروائیں۔
ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت قائداعظم کا وہ خطاب بہت اہم ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔
انھوں نے کہا کہ اب اگر ریاست کسی کے مذہبی معاملے میں مداخلت نہ بھی کرے تو اس کا رویہ معذرت خواہانہ ہو جاتا ہے جس سے وہ اُس مذہبی گروہ کے خلاف وہ کارروائی نہیں کر پاتی جو اُسے کرنی چاہئیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلح فرقہ وارانہ گروہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں نے پاکستان میں مسیحی، شیعہ مسلمانوں اور ہزارہ برادری پر حملے کیے ہیں۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت ہے اور بین الاقوامی مذہبی آزادی کے ایکٹ 1998 کے تحت پاکستان میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی پر امریکہ پاکستان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتا ہے۔