پاکستان کے جوہری سائنسدان ڈاکٹر اے۔ کیو۔ خان کی طرف سے مبینہ طور پر ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو جوہری مواد فراہم کرنے کے کردار کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ایک ذمہ دار جوہری ملک کی حیثیت سے قدرومنزلت مشکوک ہو گئی تھی اور پاکستان کو اس کا خمیازہ آج بھی اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی طرف سے پاکستان کو رکنیت دینے سے مسلسل انکار ہے۔ اگرچہ بھارت کو بھی فی الحال رکنیت نہیں دی گئی لیکن امریکہ اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے بعض ارکان بھارت کو رکنیت دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکہ میں میزائل اور جوہری مواد کے پھیلاؤ کے ماہر اور جیمز مارٹن سنٹر برائے جوہری عدم پھیلاؤ کے سینئر محقق جوشووا پولک نے وائس آف امریکہ کی اُردو سروس سے ایک خصوصی ملاقات میں کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرف سے ایٹمی ٹکنالوجی دوسرے ملکوں کو دینے کی وجہ سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر شدید رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تھا جو اب بھی جاری ہے۔ ان کے کردار کی وجہ سے بہت ابہام پایا جاتا ہے۔ تاہم عام تاثر یہی ہے کہ اُنہوں نے یہ کام پیسے کے لالچ میں کیا اور سینٹریفیوجز سمیت جوہری سامان ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو فروخت کرنے کیلئے قدیر خان نے پاکستان کے حساس اداروں کے بعض افسران کو ممکنہ طور پر رشوت بھی دی ہو گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر قدیر خان نے جو استعمال شدہ سینٹریفیوجز اور دیگر جوہری سامان ایران کو فراہم کیا، اس سے ایران میں جوہری پروگرام کی رفتار تیز ہو گئی۔ شمالی کوریا کے بارے میں اُنہوں نے کہا کہ عام تاثر یہی ہے کہ شمالی کوریا سے میزائل ٹکنالوجی کے حصول کی خاطر قدیر خان نے جوہری ٹکنالوجی اسے فراہم کی۔ تاہم بے نظیر بھٹو اور پھر بعد میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے اس بات کی سختی سے تردید کی تھی اور کہا تھا کہ شمالی کوریا سے میزائل ٹکنالوجی بھاری رقم کے عوض حاصل کی گئی تھی۔ لہذا اگر ان دونوں لیڈروں کی بات مان لی جاتی ہے تو خیال یہی ہے کہ قدیر خان نے جوہری ٹکنالوجی شمالی کوریا کو ذاتی مالی فائدے اور بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ بڑھانے کیلئے فروخت کی۔
ڈاکٹر قدیر خان نے 2004 میں اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی میں اُن کے ساتھ پاکستانی فوج کے دو ریٹائرڈ بریگیڈیئر بھی شامل تھے۔ اُن کے مطابق اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ دیگر ممالک کو نیوکلیئر پروگرام کی منتقلی سے پاکستان پر عالمی دباؤ میں کمی آئے گی تاہم ایسا نہیں ہوا اور پاکستان کو مسلسل حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
اسلام آباد میں وی او اے کے نمائیندے محمد اشتیاق نے متعدد بار ڈاکٹر قدیر سے اس بارے میں رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن تاحال اس بارے میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ وی او اے نے البتہ پاکستان اٹامک انرجی کمشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند سے اس بارے میں بات کی تو اُنہوں نے وی او اے کے نمائیندے محمد اشتیاق کو بتایا کہ جوہری پروگرام سے جڑے تمام کام کبھی بھی کسی ایک ادارے میں نہیں ہوتے اور نا ہی یہ کام کوئی ایک شخص تنہا کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر قدیر کے بارے میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی ایک شخص میٹالرجسٹ بھی ہو، نیو کلیئر تھیوری کا ماہر بھی ہو اور اُسے بم ٹیسٹنگ کی سوجھ بوجھ بھی ہو۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند کاکہنا تھا کہ پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے بدترین دور میں جوہری پروگرام مکمل طور پر محفوظ رہا کیونکہ پاکستان نے اپنے جوہری پروگرام کے تحفظ کیلئے ایک مربوط نظام وضح کر رکھا جس کا تمام دنیا اعتراف کرتی ہے۔
نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کے بارے میں جیمز مارٹن سینٹر برائے جوہری عدم پھیلاؤ کے سینئر محقق جوشووا پولک نے کہا کہ بھارت کی رکنیت کیلئے بات چیت جاری ہے اور اسے بہت سے معاملات میں استثنیٰ بھی حاصل ہے۔ اس کے مقابلے میں یورپی ادارے یورینکو کنسورشیم کو پاکستان سے یہ پریشانی لاحق ہے کہ اُس کے تیار کردہ سیٹریفیوجز ڈاکٹر قدیر خان کے ذریعے متعدد دیگر ممالک کو فراہم کر دئے گئے جو اُن کیلئے ندامت کا باعث بنے۔ یوں بہت سے حلقے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ہیں۔ علاوہ اذیں اگر پاکستان کو کسی طرح اس گروپ کی رکنیت حاصل ہو جاتی ہے اور بھارت کو باہر رکھا جاتا ہے تو یہ بات بھی بہت سے متعلقہ حلقوں کیلئے پریشان کن ہے۔ تاہم جوشووا کا خیال ہے کہ مستقبل میں یہ دونوں ممالک یکے بعد دیگرے گروپ کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
جوشووا کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر قدیر خان نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اُنہوں نے چین کو بھی جوہری ٹکنالوجی فراہم کی تھی جو ممکنہ طور پر سچ ہو سکتا ہے۔ جوشووا کا کہنا کہ ڈاکٹر قدیر خان پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی نہیں تھے تاہم اُنہوں نے اسے اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔
ڈاکٹر اے۔ کیو۔ خان ایک میٹرلجسٹ تھے جو 1960 اور 1970 کی دہائی کے دوران ہالینڈ کی ایک کمپنی میں کام کرتے تھے۔ یہ کمپنی یورپ میں سینٹریفیوج بنانے والی سب سے بڑی کمپنی یورینکو کو پرزہ جات فراہم کرتی تھی۔ اُس زمانے میں پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کیلئے سینٹری فیوج بنانا تقریباً ناممکن تھا کیونکہ اس کیلئے جو مہارت اور وسائل درکار تھے، وہ پاکستان میں موجود نہیں تھے۔ مڈل بری انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر جیفرے لیوئس کے مطابق ڈاکٹر قدیر خان نے محسوس کیا کہ چونکہ یورینکو بھی تما تر سینٹریفیوج خود تیار نہیں کرتی بلکہ اس کے پرزہ جات مختلف ممالک سے درآمد کرتی تھی لہذا پاکستان خود بھی سینٹری فیوج تیار کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ لہذا ڈاکٹر قدیر خان نے سینٹری فیوج کے کاروبار سے متعلق حلقوں میں اپنے رابطوں کو استعمال کرتے ہوئے سنٹری فیوج کے پرزہ جات تیار کرنے والی تمام کمپنیوں کو پاکستان کے مفاد میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ یوں اُنہوں نے ایک طرح سے اس شعبے میں پاکستان کیلئے ایک صنعتی انقلاب برپا کر دیا جس کے ذریعے بیرونی ممالک سے پرزہ جات اور مواد حاصل کر کے پاکستان نے سینٹری فیوج ملک کے اندر تیار کرنے شروع کر دئے جو پاکستان کے جوہری پروگرام کیلئے انتہائی اہم ثابت ہوا۔ پروفیسر جیفرے لیوئس کہتے ہیں کہ 1980 اور 1990 کی دہائی کے دوران اُنہوں نے اپنا وسیع کاروبار تشکیل دے دیا۔ اس کاروبار کے سودوں کیلئے پاکستانی حکومت نے مکمل طور پر اُن کی حوصلہ افزائی کی۔ پھر 1990 کی دہائی کے دوران ہی ڈاکٹر قدیر خان نے یہ ٹیکنالوجی متعدد ممالک کو منتقل کر دی جن میں خاص طور پر ایران اور شمالی کوریا شامل ہے جن کے جوہری پروگرام پرامریکہ میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ پروفیسر لیوئس کے مطابق اس بارے میں مکمل ابہام پایا جاتا ہے کہ کیا جوہری ٹکنالوجی کی منتقلی اُن کا انفرادی فعل تھا یا پاکستانی حکام کی ایما پر اُنہوں نے ایسا کیا یا پھر یہ دونوں عوامل کارفرما تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر قدیر کے اس اقدام کی وجہ سے امریکہ میں جوہری مواد کے پھلاؤ سے متعلق تمام تر نظریہ ہی تبدیل ہو گیا کیونکہ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ سینٹری فیوج تیار کرنے کی ٹیکنالوجی اس قدر پیچیدہ ہے کہ ترقی پزیر اور غریب ملکوں کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اب یہ انکشاف ہوا کہ اس کام کیلئے پوری دنیا کو ایک صنعتی ڈھانچے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور کوئی بھی ہوشیار سائینسدان مختلف ممالک سے پرزہ جات اور دیگر سامان درآمد کرکے سینٹریفیوج تیار کر سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محض جوہری پرزہ جات اور مواد کی فراہمی کو روک کر جوہری عدم پھیلاؤ کے نظریے پر کاربند نہیں رہا جا سکتا۔
جنوبی ایشیا کیلئے امریکہ کی سابق معاون وزیر خارجہ روبن رافل کہتی ہیں کہ ڈاکٹر قدیر خان کو پاکستان میں بہت قدرومنزلت سے دیکھا جاتا ہے اور اُنہیں پاکستان کے جوہری پروگرام کا خالق سمجھا جاتا ہے۔ تاہم بعد میں انکشاف ہوا کہ اُنہوں نے شمالی کوریا سے میزائل ٹکنالوجی کے حصول کیلئے اسے جوہری ٹکنالوجی فراہم کر دی۔ اُنہوں نے انتہائی حساس جوہری ٹکنالوجی ایران اور لیبیا کو بھی فراہم کی۔ یوں وہ خطرناک حد تک جوہری پھیلاؤ کے مرتکب ہوئے۔
سابق امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جوہری عدم پھیلاؤ رابرٹ آئن ہارن کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان اور اُن کا نیٹ ورک ایران اور شمالی کوریا میں سینٹری فیوج کے استعمال سمیت جوہری افزودگی کا سلسلہ شروع کرنے کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ اُنہوں نے لیبیا کو بھی جوہری افزودگی کی ٹکنالوجی اور سازوسامان فراہم کیا لیکن چونکہ لیبیا میں پیچیدہ جوہری ٹکنالوجی کی سمجھ بوجھ نا ہونے کے برابر تھی اسلئے لیبیا کو فراہم کیا گیا جوہری سامان ڈبوں سے باہر ہی نہ آ سکا۔ لیکن ایران اور شمالی کوریا میں صورت حال مختلف تھی۔ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کی بنیاد پلوٹونیم کی افزودگی پر ہے اور ایران اور شمالی کوریا اب جوہری پروگرام میں جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس کی تمام تر ذمہ داری ڈاکٹر قدیر خان پر عائد ہوتی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اقدام کے رد عمل میں امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے کیا حفاظتی تدابیر اختیار کیں؟ امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے سابق چیئرمین تھامس فنگر بتاتے ہیں کہ امریکہ میں اور دیگر یورپی ممالک میں ایسے اقدامات اختیار کئے گئے جن کے ذریعے جوہری پروگرام کیلئے درکار سازوسامان اور پرزہ جات کے حصول کو انتہائی پیچیدہ بنا دیا گیا اور تمام سرحدوں پر جوہری مواد کی ممکنہ ترسیل کی نگرانی انتہائی سخت کر دی گئی۔ ان اقدامات سے کسی بھی شخص کیلئے وہ کام کرنا انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے جو ڈاکٹر قدیر خان نے کیا تھا۔
وائٹ ہاوس میں جنوبی ایشیائی امور کی مشیر لیزا کرٹس کہتی ہیں کہ ڈاکٹر قدیر خان کا یہ اقدام امریکہ۔پاکستان تعلقات کیلئے تباہ کن ثابت ہوا۔ اُن کےاس اقدام کو امریکہ میں جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے تاریخ کے سب سے بڑے سانحے کے طور پر دیکھا گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکہ کو اس بات پر بھی شدید مایوسی ہوئی کہ امریکی اہلکاروں کو براہ راست ڈاکٹر قدیر خان سے تفتیش کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ لیزا کرٹس کہتی ہیں کہ ڈاکٹر قدیر کا کیس اب بھی امریکہ۔پاکستان تعلقات کی راہ میں حائل ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو وہ سول نیوکلیئر تعاون فراہم کرنے سے گریزاں ہے جو اُس نے بھارت کو فراہم کیا ہے۔
کارنیگی اینڈاؤمنٹ میں نیوکلیئر پالیسی پروگرام کے سربراہ ٹوبی ڈالٹن کے مطابق پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ جس وقت ڈاکٹر قدیر خان نے دیگر ممالک کو جوہری ٹکنالوجی فراہم کی، اُس وقت اس بارے میں کوئی قوانین موجود نہیں تھے۔ تاہم اس اقدام کے بعد پاکستان میں جوہری عدم پھیلاؤ کےلیے انتہائی سخت قوانین اور ضابطے نافذ کئے جا چکے ہیں۔ ٹوبی ڈالٹن نے اعتراف کیا کہ پاکستان نے جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی آئی اے ای اے کو کسی قدر تعاون فراہم کرتے ہوئے یہ معلومات فراہم کی ہیں کہ کس قسم کا جوہری مواد پاکستان سے ایران ، لیبیا اور شمالی کوریا کو فراہم کیا گیا۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے اور پاکستانی حکومت کا آئی اے ای اے اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو براہ راست ڈاکٹر قدیر خان سے تفتیش کرنے کا موقع فراہم کرنے سے انکار یہ ثابت کرتا ہے کہ کچھ ایسی باتیں ضرور ہیں جو پاکستان دنیا سے چھپانا چاہتا ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان میں ڈاکٹر قدیر خان کو بہت قدر و منزلت سے دیکھا جاتا ہے اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیے اُن کی خدمات کو بہت سراہا جاتا ہے۔ پاکستان کے جوہری پروگرام میں اُنہوں نے جو کردار ادا کیا، اُس کے بغیر شاید پاکستان کیلئے اس میں اس قدر کامیابی حاصل کرنا دشوار ہوتا۔