رسائی کے لنکس

دھوکے کھانے والا آدمی


آصف فرخی، فائل فوٹو
آصف فرخی، فائل فوٹو

ڈاکٹر آصف فرخی دسمبر میں واشنگٹن آئے تو تین چار دن ہم نے ساتھ گزارے۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کے دفتر کا دورہ کیا اور میں نے انھیں کتابوں کی کئی اچھی دکانیں دکھائیں۔

انھوں نے درجن بھر کتابیں خریدیں اور مجھے ان کی پسند کا اندازہ ہوا۔ بلکہ سمجھ میں آیا کہ عالمی فکشن کی کتابوں کا انتخاب کیسے کیا جائے۔

میں نے انھیں چینی ادیب یان لیانکے کا ناول میرو پیش کیا۔ وہ انھوں نے ایک رات میں پڑھ لیا اور بہت خوش ہوئے۔ وہ پاکستان جا کر اس کا ترجمہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ آصف بھائی 2013 میں یان لیانکے سے مل چکے تھے جو مین بکر کی تقریب کے لیے وہاں آئے ہوئے تھے۔

میں لاپتا ہوگیا ہوں
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:15 0:00

کرسمس کے دن شہر بند تھا اس لیے ہم نے خالی سڑکوں پر آوارہ گردی کی یا ہوٹل میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ میرے پاس ان کی ایک پرانی کتاب تھی۔ اس پر دستخط کرنے کی درخواست کی۔ انھوں نے شرط عائد کی کہ اپنی ایک کتاب پر دستخط کر کے دوں۔ میں نے بہانہ بنایا کہ مجھے تو سو لفظوں میں کچھ لکھنا چاہیے۔ بعد میں لکھ کر دستخطوں کے ساتھ بھیجوں گا۔ وہ سیدھے سادے آدمی تھے۔ میری بات مان لی۔

چند ہفتے پہلے ان کا فون آیا۔ بہت پرجوش تھے۔ کہنے لگے، میں نے اپنے رسالے دنیازاد کا وبا کے زمانے کا نمبر نکالنے کا ارادہ کیا ہے۔ آپ اس کے لیے کہانیاں ڈھونڈیں اور خود بھی لکھیں۔ میں نے کئی کہانیاں منتخب کیں۔ ایک دو خود بھی گھڑ لیں۔ اب حیران بیٹھا ہوں کہ ان کا کیا کروں۔

آصف بھائی سے میری دوستی زیادہ نہیں، بس سات آٹھ سال پرانی تھی۔ غالباً دسمبر 2012 کی کسی شام میں نے ان کا نمبر کسی سے مانگا اور فون کر کے بتایا کہ میرے پاس ذرا مختلف قسم کی کہانیاں ہیں۔ ہر کہانی صرف سو لفظوں کی ہے۔ انھوں نے یہ آئیڈیا پسند کیا اور کہانیاں دیکھنے کی خواہش کی۔ انھوں نے وہ کہانیاں دنیازاد میں چھاپیں اور اس کے بعد اپنے اشاعتی ادارے کے تحت میری تمام کتابیں بھی۔

آصف بھائی دوسروں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ مجھے غیر ادیب ہوتے ہوئے بھی کراچی اور اسلام آباد لٹریچر فیسٹول میں مہمان بنایا۔ ایک بار حبیب یونیورسٹی میں اپنی کلاس میں گفتگو کے لیے بلایا۔ جب میں نے بحریہ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا تو انھوں نے حبیب یونیورسٹی کے لیے ایک سیمسٹر کی تیاری کرنے کے لیے کہا۔ لیکن اس کی نوبت نہ آئی اور میں امریکہ آ گیا۔

آصف بھائی کراچی میں کئی بار میرے گھر آئے اور میں بہت بار ان کے گھر گیا۔ انھوں نے مجھے کئی قیمتی کتابیں دیں، کئی قیمتی مشورے دیے اور کئی قیمتیں یادیں شیئر کیں۔ قیمتی لوگ ایسے ہوتے ہیں۔

ایک بار میں نے آصف بھائی سے درخواست کی کہ مجھے اچھا افسانہ لکھنے کا گر سکھائیں۔ انھوں نے کئی باتیں بتائیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ اپنے قاری کو دھوکا دینا سیکھیں۔ انھوں نے میری کئی کہانیاں اپنے پرچے دنیازاد میں چھاپیں اور کئی مسترد بھی کیں۔ وہ یہ کہہ کر میری کہانی چھاپنے سے انکار کرتے تھے کہ اس کا انجام وہ پہلے ہی جان گئے تھے۔ میں اس میں انھیں دھوکا نہیں دے پایا۔

آصف بھائی پہلے افسانے لکھتے تھے لیکن درمیان میں لمبا وقفہ آیا۔ میں ان سے پوچھتا تھا کہ افسانہ کیوں نہیں لکھتے۔ وہ کہتے تھے، میرے پاس کوئی کہانی ہی نہیں ہے۔ میں حیران ہو جاتا تھا کہ افسانہ نگار کے پاس کہانی کیوں نہیں ہے۔

واشنگٹن میں آخری ملاقات کے موقع پر آصف بھائی نے کہا، ایک افسانہ سناؤں؟ میں نے خوش ہو کر کہا، ضرور سنائیں۔ انھوں نے افسانہ سنایا اور اس کے بعد اس کے پس منظر سے آگاہ کیا۔ وہ ان کی ذاتی زندگی کے ایک حالیہ المیے پر مبنی تھا۔ ممکن ہے کہ پاکستان میں ان کے دوست اس المیے سے آگاہ ہوں۔ میرے علم میں نہیں تھا اس لیے مجھے ایک جھٹکا لگا۔

آصف بھائی کا علم، تعلیم، مطالعہ، تحریر، پیشہ ورانہ خدمات، خوش اخلاقی سب لائق تحسین تھیں۔ آج سیکڑوں افراد آصف بھائی کی تعریفیں کر رہے ہیں کیونکہ انھوں نے سب کے ساتھ حسن سلوک کیا۔ لیکن وہ سادہ مزاج آدمی تھے۔ جس طرح کہانیوں میں دھوکا کھاتے تھے، اسی طرح حقیقی زندگی میں بار بار دھوکے کھاتے رہے۔

جس ادارے کو انھوں نے بہترین کتابوں اور ادبی میلے کا تحفہ دیا، اس سے دھوکا کھایا۔ کاروبار کیا تو اس میں دھوکا کھایا۔ اور جس زندگی سے خوش تھے، اس زندگی سے دھوکا کھایا۔

آصف بھائی کے پرچے کا نام دنیازاد تھا اور اشاعتی ادارے کا نام شہرزاد۔ یہ دو بہنیں ہیں جن میں ایک شہزادی دوسری کو ایک ہزار ایک راتوں تک کہانیاں سناتی ہے۔ اس داستان کا نام الف لیلہ ہے۔

گزشتہ رات ایک داستان کا اختتام ہوا۔ اگلی شب شہرزاد بھی ہو گی اور دنیازاد بھی، لیکن کہانی نہیں ہو گی کیونکہ دھوکے کھانے والا چلا گیا۔

XS
SM
MD
LG