سن پچاس کی دہائی کا واقعہ ہے۔ کراچی کے میکلوڈروڈ جس کا موجودہ نام آئی آئی چندریگر روڈ ہے، اس پر ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ کوڑھ کو مریضو ں کی ایک بستی ہوا کرتی تھی جہاں نہ بجلی تھی، نہ پانی، نہ گیس۔ غلاظت اگلتے گٹر تھے اور کوڑھ یا جزام کے مریضوں کی بہتات تھی۔
علاج کی سہولت نہ ہونے کے سبب حالت اس قدر بری تھی کہ مریضوں کے جسم چوہوں کی خوارک بنے ہوئے تھے کیونکہ اس مرض میں جسم کی حساسیت ختم ہو جاتی ہے اور ایسے میں کوئی جانور کاٹ بھی لے تو مریض کو اس کا احساس نہیں ہو پاتا۔
لوگ اس مرض کو لاعلمی کے باعث ’گناہوں کی سزا‘ کہا کرتے تھے اور جزام کے مریض کو، خواہ اس سے ان کا کوئی بھی خونی یا کتنا ہی قریبی رشتہ کیوں نہ ہو، اسے جنگلوں اور ویرانوں میں تنہا چھوڑ آتے تھے۔ انہیں ڈر ہوتا تھا کہ کہیں یہ مرض انہیں نہ لگ جائے۔
ان مریضوں کی تیمارداری کرنے والا کوئی نہیں تھا اور پوری بستی ہی ایک کے بعد ایک مریضوں سے بڑھتی جارہی تھی جبکہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی یہ مرض پھیلنے کی اطلاعات دنیا بھر میں عام ہو رہی تھیں۔
اس صورتحال پر کئی ایک دستاویزی فلمیں بھی بنیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں دکھائی گئیں۔ 1958ء میں بنی ایسی ہی ایک دستاویزی فلم دیکھ کر جرمنی کی ایک خاتوں ڈاکٹر کے دل پر وہ اثر ہوا کہ انہوں نے اپنی فلاحی تنظیم کی پہلی ہی پیشکش پر خود کو پاکستان میں موجود جزام کے مریضوں کی خدمات کے لئے پیش کر دیا۔
تنظیم نے انہیں پاکستان روانہ کیا جہاں میکلوروڈ پہنچتے ہی انہوں نے ایک جھونپڑی میں جذام کے مریضوں کے لئے مفت کلینک قائم کیا۔ اس کلینک میں رہتے ہوئے خاتون ڈاکٹر نے نہ صرف اپنے ہاتھوں سے مریضوں کو دوائی کھلانے سے لیکر ان کے رستے ہوئے زخموں پر پٹیاں باندھیں بلکہ انہیں تسلی اور حوصلہ بھی دیا۔
وہ جرمن ضرور تھیں لیکن دل میں پاکستان اور پاکستانی عوام کی خدمت کا جذبہ اس قدر زیادہ تھا کہ ایک بار یہاں آئیں تو پھر یہیں کی ہو رہیں۔
انسانیت کے اسی پیکر، اسی روشن ستارے اور اسی نادر موتی کو دنیا ’ڈاکٹرروتھ فاؤ‘ کے نام سے جانتی ہے۔ ۔۔اگر ان کی خدمات کو دیکھا جائے تو یہ تمام الفاظ چھوٹے اور القابات محض معمولی لگتے ہیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ پاکستان کی ’مدر ٹریسا‘ تھیں تاہم 10 اگست کی رات ان کے مریضوں اور پرستاروں کے لئے بہت بھاری ثابت ہوئی۔ انہوں نے پاکستان کے لئے اپنی زندگی کے 57 سال وقف کئے۔ اپنا وطن، عزیز و اقارب، ماں باپ، عیش و عشرت ۔۔ سب کچھ چھوڑ دیا اور جذام کے مریضوں کو اپنا بنالیا۔
ان مریضوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی تھی لہذا سن 1963ء میں ڈاکٹر روتھ فاؤ نے میکلوڈ روڈ کا چھوٹا ساکلینک چھوڑا اور’میری ایڈیلیڈلیپروسی سینٹر‘ کے تحت شاہراہ لیاقت صدر میں اسپتال قائم کیا۔ اس وقت سے اب تک ڈاکٹر روتھ فاؤ اسی کلینک میں واقع ایک چھوڑے سے کمرے میں زندگی بسر کرتی رہیں۔
وہ پچھلے کئی ماہ سے بیمار تھیں۔ مسلسل طبیعت خراب ہوتے رہنے کے سبب گزشتہ ہفتے انہیں آغا خان اسپتال کراچی میں داخل کرایا گیا لیکن جمعرات 10 اگست رات بارہ بج کر 30 منٹ پر وہ سدا کے لئے اس دنیا کو خیرباد کہہ گئیں۔
جمعرات کی شام وائس آف امریکہ کے نمائندے نے ان کے اسپتال اور نجی کمرے کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کا اسپتال اور او پی ڈی آج بھی معمول کے مطابق کھلی رہی اور سینکڑوں مریض آج بھی اس سے فیضیاب ہوئے۔
’میری ایڈیلیڈلیپروسی سینٹر‘ کے سپروائز ریسورسز موبیلائزیشن شارق زمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’’ڈاکٹر فاؤ زندگی بھر کام ، کام اور بس کام ہی کرتی رہیں۔ وہ ایک دن بھی چھٹی نہیں کیا کرتی تھیں۔ لیپروسی سینٹر ان کے ہاتھوں روشن ہونے والا ایک چراغ ہے جو ہمیشہ انسانیت کی خدمت کے لئے روشن رہے گا ۔۔ہم ڈاکٹر فاؤ کے ہاتھوں روشن ہونے والے اس چراغ کو بھلا کس طرح گل کرسکتے ہیں۔‘‘
شارق نے وی او اے کو بتایا ’ ڈاکٹر فاؤ جس کمرے میں رہتی تھیں وہ برسوں سے خستہ حالی کا شکار تھا۔ کئی مرتبہ ان سے اس کمرے کو رینوویٹ کرانے کی اجازت مانگی گئی لیکن ڈاکٹر فاؤ ہمیشہ ہنس کر ٹال جاتیں۔ وہ سادہ مزاج تھیں اور اس بات کو ترجیحی دیتی تھیں کہ ان کی بجائے ان کے مریضوں پر ہونے والے خرچ میں کسی طرح کمی نہ آئے۔ جب کمرے کی حالت بالکل ہی بگڑ گئی تو مشکل سے انہیں مناکر کمرے کو سادہ انداز میں رینوویٹ کرایا گیا لیکن وہ صرف ایک دن ہی اس کمرے میں رہ سکی کیوں کہ بیماری کے سبب انہیں اسپتال منتقل کرنا پڑا۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اب دوبارہ وہ خود چل کر اس کمرے میں کبھی نہیں آسکیں گی۔ ‘
کمرے کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ڈاکٹرفاؤ ابھی ابھی یہاں سے گئی ہوں۔ ان کے بیڈ کی سلوٹیں تک یوں ہی پڑی ہیں۔ بیڈ کے ایک کنارے ان کے سلپر اسی انداز میں رکھے ہیں جیسے وہ چھوڑ کر گئی تھیں۔ بیڈ کے ساتھ ہی ایک ٹیبل موجود ہے جس پر وہ آخری دنوں تک کام کرتی رہیں۔ اس ٹیبل کی درازیں نیم کھلی ہیں، جو انہوں نے ہی آخربار کھولی یا بند کی ہوں گی۔
ٹیبل پر اس روز کا اخبار اور اس پر ان کے زیراستعمال رہنے والا موٹے شیشوں کا چشمہ، ایک پین اور ان کا ہیربرش رکھا ہے۔ ٹیبل سے جڑے ایک خانے میں والدین کی پرانے وقتوں کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر فریم میں جڑی ہے۔
ٹیبل پر ایک سرخ رنگ کے کپڑے میں لپٹی بائبل بھی رکھی ہے۔ ان کے ایک دیرنہ ملازم پیار علی نے بتایا کہ یہ بائیل اسپتال میں بھی ان کے سرہانے آخری وقت تک رکھی رہی ۔ وہ روزانہ اس کا مطالعہ کیا کرتی تھیں اور اسپتال میں بھی ذرا سی طبیعت سنبھلتی تو بائیل پڑھا کرتی تھیں۔
شارق زمان نے وی او اے کو بتایا کہ ڈاکٹر فاؤ کے آخری سانس تک وہ ان کے سرہانے موجود رہے۔ ڈاکٹر فاؤ اردو انگریزی اور جرمن، تینوں زبانیں مہارت سے بولا کرتی تھیں لیکن بالکل آخری دنوں میں انہیں صرف جرمن زبان یاد رہ گئی اور اسی میں وہ زیرلب بولا کرتی تھیں۔
پیار علی کے بارے میں شارق زمان نے بتایا کہ پیار علی ڈاکٹر فاؤ کے اتنے قریب اور دیرینہ خدمت گار ہیں کہ آخری وقت بھی انہوں نے انہی کا نام لے کر خود کلامی کی تھی۔ پیار علی کے لئے ڈاکٹر فاؤ، اور ڈاکٹر صاحبہ کے لئے پیار علی ہی سب کچھ تھے۔ وہ پیار علی کے ہاتھ کا بنا کھانا ہی کھاتی تھیں اور بہت سادہ خوراک استعمال کرتی رہیں۔ انہوں نے برسوں تک صرف سفید رنگ کے ہی ملبوسات زیب تن کئے۔
جس کمرے میں وہ رہا کرتی تھیں اس کے دروازے پر ان کا نام لکھا ہے۔ وہ بیماری اور کمزوری کی وجہ سے چل نہیں سکتی تھیں اور وہیل چیئر استعمال کرتی تھیں۔ شارق کے بقول ’وہ مریضوں سے ملنے بھی وہیل چیئر پر جایا کرتی تھیں ۔ ‘
ان کے کمرے کے آس پاس ، باتھ روم اور راہ داریوں تک میں جگہ جگہ اسٹیل کے ہنڈل لگے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر فاؤ ان کے سہارے خود وہیل چیئر چلاتی تھیں اور بہت کم ہی کسی سے انہوں نے کبھی کوئی مدد لی۔
ڈاکٹر فاؤ کو طوطے پالنے کا بہت شوق تھا۔ اپنے طوطوں سے اس قدر پیار تھا کہ کمرے کا ایک دروازہ جو گیلری کی جانب کھلتا ہے وہاں انہیں نے ایک بڑے سائز کا پنجرا خصوصی طور پر بنوا کر اس میں طوطے پالے ہوئے تھے۔ بیماری کی حالت میں بھی وہ بستر پر لیٹے لیٹے گھنٹوں ان طوطوں کو کھیلتے دیکھتی رہتی تھیں۔
اس چھوٹے سے کمرے سے متصل ایک اور کمرا بھی ہے جہاں ایک چھوٹی سی گول میز رکھی ہے۔ وہ میڈیا نمائندوں کو اسی ٹیبل پر بیٹھ کر انٹرویو دیا کرتی تھیں۔ شارق کا کہنا ہے کہ وہ بیماری سے کچھ عرصہ پہلے تک بہت ایکٹیو رہیں اور اپنا ہر کام خود کیا کرتی تھی بس ایک سسٹم مارگریٹ ہمیشہ ان کے ساتھ رہ کرتی تھی، اس کے باوجود وہ اپنے کام خود کرتیں۔ ‘‘
شارق کا کہنا ہے کہ جب ڈاکٹر فاؤ کی شب و روز محنت سے پاکستان کو جذام فری قرار دیا گیا تو انہیں نے ٹی بی اور امراض چشم کے مریضوں پر توجہ دینا شروع کردی جو آج تک جاری ہے۔ اسپتال میں دوائیں دینے سے لیکر آپریشن تک ہر علاج معالجہ مفت ہوتا ہے۔ کسی سے ایک پائی نہیں لی جاتی۔ اسپتال کو جرمن اور پاکستانی ڈونرز مل کر چلاتے ہیں۔ چندہ چھوٹا ہو یا بڑا سب اسپتال پر خرچ ہوتا ہے۔
’’کراچی کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کے ایک استاد برسوں سے ڈاکٹر فاؤ کی کتابیں اپنے طالب علموں کو فی کتاب صرف 200 روپے میں فروخت کرتے ہیں اور ان کی چھوٹی چھوٹی رقمیں تک چندے میں دے دیتے ہیں۔‘‘
شارق نے مزید بتایا کہ ان کی چھوٹی سی امداد بھی ہمارے لئے بہت بڑا سہارا ہے۔ اس چھوٹی سی رقم کے پیچھے انسانیت کی خدمت کا جو بڑا جذبہ پوشیدہ ہے ہمارے لئے وہی سب سے بڑا اور اہم ہے۔ جذام کے مریضوں کے لئے ڈاکٹر فاؤ ماں باپ بہن بھائیوں اور ہر رشتے سے زیادہ اہم تھیں۔ ان کے انتقال کی خبر پر کون سی آنکھ ہے جو اشک بار نہ ہوئی ہو۔ ہمارے لئے بھی وہ سائے دار گھنا درخت تھیں ان کا سایہ ہٹا ہے تو لگتا ہے ہم سب دھوپ میں آگئے ہیں اور مریض تو جیسے آج یتیم ہی ہوگئے ۔۔‘‘