اسلام آباد —
پاکستان میں اراکین پارلیمان اور مبصرین نے اقوام متحدہ کے ایک تحقیقات کار کی اُس رپورٹ پر محتاط ردعمل کا اظہار کیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ 2013ء کے دوران ڈرون حملوں میں کسی بھی پاکستانی شہری کی ہلاکت نہیں ہوئی۔
اقوام متحدہ کے خصوصی تحقیقات کار برائے انسداد دہشت گردی و انسانی حقوق، بین ایمرسن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ نو سالوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ 2013ء میں ڈرون حملوں میں کوئی بھی عام شہری ہلاک نہیں ہوا۔
قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین شیخ روحیل اصغر اور تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے دوران شہری ہلاکتوں کی تصدیق یا تردید بظاہر ایک مشکل کام ہے کیوں کہ اُن کے بقول جن علاقوں میں یہ کارروائیاں کی جاتی ہیں وہاں تک آزاد ذرائع کی رسائی نہیں۔
اقوام متحدہ کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔
ایمرسن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 2013ء میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کل 27 ڈرون حملے ریکارڈ کیے گئے جب کہ 2010ء میں سب سے زیادہ 128 ایسے میزائل حملے ہوئے۔
اُنھوں نے کہا کہ 2014ء میں اب تک پاکستان میں کوئی بھی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔
شیخ روحیل اصغر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ ڈرون حملے مکمل طور پر بند ہونے چاہیئں۔
اُنھوں نے کہا کہ اس رپورٹ کے باوجود ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد سے متعلق ابہام برقرار رہے گا۔
’’جب تک وہاں (قبائلی علاقوں) کے رہائشی اس کی تصدیق نہیں کرتے، شہری ہلاکتوں کی مصدقہ تعداد کوئی بتا نہیں سکے گا۔‘‘
شیخ روحیل بتایا کہ پاکستانی وزارت داخلہ نے بھی اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں سے متعلق تعداد کافی کم بتائی تھی جس پر اُن کے بقول حزب مخالف کی جماعتوں نے کافی احتجاج کیا تھا۔
تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں اور عام لوگوں میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔
’’لیکن یہ ایک بین الاقوامی تنظیم کی رپورٹ ہے اس لیے عالمی سطح پر اس کو زیادہ سنا جائے گا۔‘‘
حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات کے عمل میں مصروف ہے اور اس عمل کے دوران ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان نے امریکہ سے ڈرون حملہ نا کرنے کو کہا تھا۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم یہ کہہ چکی ہیں کہ پاکستان نے ڈرون حملوں میں کمی کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ان کی مکمل بندش کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی تحقیقات کار برائے انسداد دہشت گردی و انسانی حقوق، بین ایمرسن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ نو سالوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ 2013ء میں ڈرون حملوں میں کوئی بھی عام شہری ہلاک نہیں ہوا۔
قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین شیخ روحیل اصغر اور تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے دوران شہری ہلاکتوں کی تصدیق یا تردید بظاہر ایک مشکل کام ہے کیوں کہ اُن کے بقول جن علاقوں میں یہ کارروائیاں کی جاتی ہیں وہاں تک آزاد ذرائع کی رسائی نہیں۔
اقوام متحدہ کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔
ایمرسن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 2013ء میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کل 27 ڈرون حملے ریکارڈ کیے گئے جب کہ 2010ء میں سب سے زیادہ 128 ایسے میزائل حملے ہوئے۔
اُنھوں نے کہا کہ 2014ء میں اب تک پاکستان میں کوئی بھی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔
شیخ روحیل اصغر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ ڈرون حملے مکمل طور پر بند ہونے چاہیئں۔
اُنھوں نے کہا کہ اس رپورٹ کے باوجود ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد سے متعلق ابہام برقرار رہے گا۔
’’جب تک وہاں (قبائلی علاقوں) کے رہائشی اس کی تصدیق نہیں کرتے، شہری ہلاکتوں کی مصدقہ تعداد کوئی بتا نہیں سکے گا۔‘‘
شیخ روحیل بتایا کہ پاکستانی وزارت داخلہ نے بھی اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں سے متعلق تعداد کافی کم بتائی تھی جس پر اُن کے بقول حزب مخالف کی جماعتوں نے کافی احتجاج کیا تھا۔
تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں اور عام لوگوں میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔
’’لیکن یہ ایک بین الاقوامی تنظیم کی رپورٹ ہے اس لیے عالمی سطح پر اس کو زیادہ سنا جائے گا۔‘‘
حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات کے عمل میں مصروف ہے اور اس عمل کے دوران ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان نے امریکہ سے ڈرون حملہ نا کرنے کو کہا تھا۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم یہ کہہ چکی ہیں کہ پاکستان نے ڈرون حملوں میں کمی کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ان کی مکمل بندش کا مطالبہ کیا ہے۔