اسلام آباد —
متنازع امریکی ڈرون حملوں کے خلاف تحریک کے سلسلے میں پاکستان پہچنے والے امن کے داعی امریکیوں کے ایک وفد نے اسلام آباد میں امریکہ کے سفارت خانے کو پہنچائے گئے ایک خط میں میزائل حملوں کا یہ سلسلہ فوری طور پربند کرکے ڈرون پالیسی کو امریکی اور بین الاقوامی قانون کے تابع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امن وفد کی سربراہ سابق امریکی سفارت کار این رائٹ نے ’’جسٹ فارن پالیسی‘‘ نامی تنظیم کی جانب یہ خط سفارت خانے کے ناظم الامور رچرڈ ہوگلینڈ کو دیا جس پر امریکہ کے 26 نامور مصنفین، فلم سازوں، پروفیسروں اور ایک نوبل انعام یافتہ شخصیت نے بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ اس کے ساتھ تین ہزار دیگر امریکیوں شہریوں کی طرف سے دستخط شدہ ایسی دستاویزات بھی امریکی قائم مقام سفیرکے حوالے کی گئیں۔
امریکی سفارت خانے کی ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی درخواست این رائٹ نے کی تھی جسے رچرڈ ہوگلینڈ نے قبول کرلیا۔
خط کے متن کے مطابق امریکی ڈرون حملوں میں 2004ء سے اب تک 474 سے 884 شہری ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 176 بچے بھی شامل ہیں۔ اس میں ان واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن میں ڈرون حملوں کے بعد امدادی کارروائیوں کے لیے وہاں پہنچنے والے رضاکاروں پرمیزائل حملے کیے گئے۔
امریکی امن وفد کے ارکان کے مطابق سفارت خانے کے ناظم الامور نے خط میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ امدادی کارکنوں کے خلاف دانستہ طور پر کبھی ڈرون طیاروں سے میزائل حملہ نہیں کیا گیا اور نا ہی حالیہ وقتوں میں ایسی کوئی کارروائی ان کے مشاہدے میں آئی ہے۔
امن کے داعی امریکیوں کا 30 رکنی وفد کے دورہ پاکستان کا اہتمام امریکہ کی تنظیم ’’کوڈ پنک‘‘ نے کیا ہے۔
این رائٹ کی سربراہی میں یہ وفد ڈرون حملے بند کرانے کی اپنی کوششوں کے سلسلے میں پاکستان میں سول سوسائٹی کی تنظیموں، امریکی اور مقامی عہدے داروں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہا ہے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آنے کا مقصد لوگوں کے ساتھ ڈرون حملوں کے خلاف اظہار یکجہتی ہے۔
’’ہم ان ڈرون حملوں کے خلاف ہیں کیوں ان میں لوگوں کو ماورائے عدالت اور بغیر مقدمہ چلائے ہلاک کیا جا رہا ہے۔‘‘
این رائٹ نے کہا کہ نا تو امریکی حکومت اور نا ہی پاکستان میں حکمران ان میزائل حملوں کے حقائق اپنی عوام کو بتانے پر آمادہ ہیں۔
’’یہ امریکی عوام کا حق ہے کہ انھیں بتایا جائے کہ یہ ڈرون حملے کیوں کیے جا رہے ہیں، ان کی منطق اور معیار کیا ہے۔ یہ کہہ دینا کہ ان معلومات کو راز میں رکھنا قومی سلامتی کے مفاد کا تقاضہ ہے انتہائی شرمناک ہے۔‘‘
لیکن این رائٹ نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی طرف سے پاکستانیوں اور امریکیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی بھی سخت مخالف ہیں۔
’’میں تشدد کی حامی نہیں ہوں، میں قطعن ان شدت پسندوں کی بھی حمایت نہیں کرتی جو تشدد کا سہارا لے رہے ہیں، میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ امریکہ کو اب افغانستان میں نہیں ہونا چاہیئے۔ ہمیں وہاں سے نکل جانا چاہیئے۔‘‘
ان امریکیوں کی آمد کا بنیادی مقصد ہفتہ کو اسلام آباد سے جنوبی وزیرستان کی طرف روانہ ہونے والے امن مارچ میں شرکت ہے جس کا اہتمام عمران خان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف نے کیا ہے۔
امن وفد کی سربراہ سابق امریکی سفارت کار این رائٹ نے ’’جسٹ فارن پالیسی‘‘ نامی تنظیم کی جانب یہ خط سفارت خانے کے ناظم الامور رچرڈ ہوگلینڈ کو دیا جس پر امریکہ کے 26 نامور مصنفین، فلم سازوں، پروفیسروں اور ایک نوبل انعام یافتہ شخصیت نے بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ اس کے ساتھ تین ہزار دیگر امریکیوں شہریوں کی طرف سے دستخط شدہ ایسی دستاویزات بھی امریکی قائم مقام سفیرکے حوالے کی گئیں۔
امریکی سفارت خانے کی ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی درخواست این رائٹ نے کی تھی جسے رچرڈ ہوگلینڈ نے قبول کرلیا۔
خط کے متن کے مطابق امریکی ڈرون حملوں میں 2004ء سے اب تک 474 سے 884 شہری ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 176 بچے بھی شامل ہیں۔ اس میں ان واقعات کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن میں ڈرون حملوں کے بعد امدادی کارروائیوں کے لیے وہاں پہنچنے والے رضاکاروں پرمیزائل حملے کیے گئے۔
امریکی امن وفد کے ارکان کے مطابق سفارت خانے کے ناظم الامور نے خط میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ امدادی کارکنوں کے خلاف دانستہ طور پر کبھی ڈرون طیاروں سے میزائل حملہ نہیں کیا گیا اور نا ہی حالیہ وقتوں میں ایسی کوئی کارروائی ان کے مشاہدے میں آئی ہے۔
امن کے داعی امریکیوں کا 30 رکنی وفد کے دورہ پاکستان کا اہتمام امریکہ کی تنظیم ’’کوڈ پنک‘‘ نے کیا ہے۔
این رائٹ کی سربراہی میں یہ وفد ڈرون حملے بند کرانے کی اپنی کوششوں کے سلسلے میں پاکستان میں سول سوسائٹی کی تنظیموں، امریکی اور مقامی عہدے داروں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہا ہے۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آنے کا مقصد لوگوں کے ساتھ ڈرون حملوں کے خلاف اظہار یکجہتی ہے۔
’’ہم ان ڈرون حملوں کے خلاف ہیں کیوں ان میں لوگوں کو ماورائے عدالت اور بغیر مقدمہ چلائے ہلاک کیا جا رہا ہے۔‘‘
این رائٹ نے کہا کہ نا تو امریکی حکومت اور نا ہی پاکستان میں حکمران ان میزائل حملوں کے حقائق اپنی عوام کو بتانے پر آمادہ ہیں۔
’’یہ امریکی عوام کا حق ہے کہ انھیں بتایا جائے کہ یہ ڈرون حملے کیوں کیے جا رہے ہیں، ان کی منطق اور معیار کیا ہے۔ یہ کہہ دینا کہ ان معلومات کو راز میں رکھنا قومی سلامتی کے مفاد کا تقاضہ ہے انتہائی شرمناک ہے۔‘‘
لیکن این رائٹ نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی طرف سے پاکستانیوں اور امریکیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی بھی سخت مخالف ہیں۔
’’میں تشدد کی حامی نہیں ہوں، میں قطعن ان شدت پسندوں کی بھی حمایت نہیں کرتی جو تشدد کا سہارا لے رہے ہیں، میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ امریکہ کو اب افغانستان میں نہیں ہونا چاہیئے۔ ہمیں وہاں سے نکل جانا چاہیئے۔‘‘
ان امریکیوں کی آمد کا بنیادی مقصد ہفتہ کو اسلام آباد سے جنوبی وزیرستان کی طرف روانہ ہونے والے امن مارچ میں شرکت ہے جس کا اہتمام عمران خان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف نے کیا ہے۔